حکومت نے یوٹرن لیتے ہوئے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا بل موخر کیا بعد ازاں منظور کر لیا۔ حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کی ترمیم منظور کر لی گئی۔
تفصیلات کے مطابق آج قومی اسمبلی میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت مشترکہ اجلاس ہوا جس میں پارلمنٹ نے انتخابی اصلاحات دوسرا ترمیمی بل 2021 منظور کر لیا گیا۔حکومت نے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل بھی منطور کر لیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بدھ کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آغاز میں ہی مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابی اصلاحات بل پر ووٹنگ مؤخر کرنے کی درخواست کی۔ اسد قیصر نے بابر اعوان کو ایجنڈا نمبر ٹو یعنی الیکشن ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ کا بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی تو بابر اعوان نے جواب دیا کہ اپوزیشن اس معاملے پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے، اس لیے اسے فی الحال مؤخر کردیا جائے۔
بعد ازاں مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابات ترمیمی بل 2021 پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک کی شدید مخالفت کی گئی لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک پر ووٹنگ کے لیے رائے شماری کا حکم دیا۔
اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔ بل منظور ہونے کے بعد اپوزیشن نے اس کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ انتخابی اصلاحات کی تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔
ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اعتراض اٹھایا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم گنتی کے دوران ایوان میں شدید بےنظمی پیدا ہوگئی اور اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور حکومت و وزیر اعظم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ ایوان میں گرما گرمی کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے لیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عالمی عدالت انصاف 2021بل بھی منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ اجلاس سے واک آؤٹ کیا گیا۔
اجلاس میں سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں انتہائی اہم دن ہے میں اس ایوان میں جو حکومت اور اس کے اتحادی بلڈوز کرا کر پارلیمانی روایات کی دھجیاں اڑانا چاہتے ہیں اس کا بوجھ اسپیکر اور معزز ایوان کے کاندھوں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل رات کے اندھیرے میں بتایا گیا کہ اگلی صبح پارلیمان کا اجلاس ہوگا اور پھر جب عمران خان کے عشایئے سے پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین غیر حاضر اور اتحادی انکاری تھے تو یکایک اجلاس مؤخر کردیا گیا اور حکومتی وزرا نے کہا کہ ہمیں متحدہ اپوزیشن سے مشورہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کے بعد مجھے آپ کا خط موصول ہوا جس پر پورے اپوزیشن اتحاد نے غور کر کے جامع جواب دیا جس میں بہترین تجاویز دی گئیں لیکن اسپیکر نے پھر اپوزیشن سے اپنا رابطہ منقطع کرلیا، ہمیں کوئی جواب نہ ملا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اس سلسلے میں کمیٹی کی تشکیل پر نہ ہم سے مشاورت کی گئی نہ آئندہ کا لائحہ عمل بتایا گیا، یہ ڈھکوسلہ تھا اور وقت حاصل کرنے کا حربہ تھا تا کہ کسی طرح ووٹس کی تعداد پوری کی جائے اور اتحادیوں کو راضی کیا جائے ورنہ آپ کا مشاورت کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہاکہ انتخابات کے بعد اگر دھاندھلی ہوئی ہو تو اس کا شور ہوتا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن سے پہلے نہ صرف یہ ایوان بلکہ 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور کررہی ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ جانتے ہیں کہ اب انہیں عوام سے ووٹ ملنا محال ہے لہٰذا کوشش یہ ہے کہ یہ سلیکٹڈ حکومت مشین کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دے سکے کیوں کہ یہ ووٹ کے لیے نہیں جاسکتے۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایم) کو ایول اینڈ ویشیئز مشین یعنی شیطانی مشین قرار دیا اور کہا کہ حکومت اس پر تکیہ کیے بیٹھی ہے۔انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہی وہ پارلیمان ہے جہاں 1973 کا آئین منظور ہوا تھا جو مشاورت لچک کا شاندار نمونہ ہے جس نے پاکستان کو متحد رکھا ہے۔