میں تو پھر سب بول دوں گا آپ چلانے کی ہمت کر پائیں گے؟

میں تو پھر سب بول دوں گا آپ چلانے کی ہمت کر پائیں گے؟
یہ سفر بہت دلچسپ ہے۔ یہ شروع ہوا جب نواز شریف  کو انکی تیسری وزارت عظمیٰ سے نکال باہر کیا گیا اور انہوں نے مجھے کیوں نکالا ریلی کا آغاز کیا۔ اس وقت  میڈیا کے چمکدار مگر مفاد کے پیپ سے بھرے پھپھولے عرف عام میں جنکو اینکرز کہا جاتا ہے ہنسا کرتے تھے۔ انکی کھلی اڑیا کرتے۔ کوئی کہتا کہ نواز شریف کا اختتام ہے۔ وہ سٹھیا گیا ہے۔

اب تو وہ اپنے ہی اخیر میں ختم ہوجائے گا۔  خشخشی داڑھیوں والے ایک ہی قماش کے ٹیڑھی آنکھوں سے خواتین اینکروں کو دیکھتے ہوئے جعلی اور غلیظ تاثر حظ دینے والے عمرانی قربت کا دعویدار اینکر ہو یا پھر بی بی سی ہارڈ ٹاک کی پلیجرائزڈ کاپی والا ڈاکٹر ۔۔۔ قیامت صغریٰ برپا کرنے اور سب اچھے کی رپورٹ دینے والا مسٹر 900 RS  ہو سب ایک ہی دھن میں مست رہے۔ اسی طبقے میں سے ایک شاہد نے اب عینی شاہد بن کر اس بدترین صحافتی بے ایمانی کا برملا اعتراف بھی کیا ہے کہ کیسے وہ اوردیگر اینکرز تجریک انصاف کے خالی جلسوں، دھرنے کو ہٹ شو بتاتے رہے۔ 

اسکے بعد نواز شریف کی جیل اور پھر عدالت میں آمد جامد کو مزید تذلیل کے ساتھ دکھایا اور بتایا جاتا رہا۔ نواز شریف کی اہلیہ بیمار ہوئیں اور پھر انتقال کر گئیں اس موقعے پر بھی گراوٹ کی نئی گہرایوں کو چھوا گیا۔

نواز شریف بیمار ہوئے تو ایسی ایسی سازشی تھیوریاں گھڑی گئیں کہ سازش کو زبان مل جاتی یا ادا پر ملکہ  حاصل ہوجاتا تو وہ بھی اسکے بننے والوں کے قدموں میں جا گرتی۔ بہرحال وہ باہر گئے، تو پھر سازش فیکٹریوں نے اوور ٹائم لگا  کر پروڈکشن کی۔ اور حکومتی ایوانوں سے دوام اور کام پانے والے صحافیوں اور اینکرز تو ایک جانب وہ صحافتی حلقے جو کہ ان میں شمار نہیں ہوتے تھے اور کریڈیبلٹی رکھتے تھے وہ بھی نواز شریف پر تبرے بھیجتے نظر آئے۔ 

نواز شریف چلے گئے، اور خاموش ہوگئے۔ بتایا گیا کہ بہت بیمار ہیں۔ پاکستانی میڈیا سے یہ بھی ہضم نہیں ہوا۔ خاموشی طویل ہوگئی۔ بیٹی  کو بھی چپ لگ گئی۔  اس پھر بھی اینکرز دوھرے ہوتے چلے گئے۔  کہتے رہے کہ ا ڈیل ہوگئی۔ جب ن لیگ نے کہا کہ ڈیل نہیں ہوئی۔ تو کہا کہ پھر بولتے کیوں نہیں۔ حتٰی کہ ایسے صحافی جو سچ بولنے کی پاداش میں اس حکومت کے ہاتھوں سب کچھ لتا چکے تھے وہ بھی خواہش نما سوالات پوچھتے رہے کہ نواز شریف بولتے نہیں۔ عدالت نے اشتہاری قرار دینے سے قبل ملک میں طلب کیا اور سرنڈر کرنے کا حکم دیا تو پھر کہا گیا کہ اگر نواز نہ آئے تو انکی سیاست ختم۔ وہ نہ آئے لیکن سیاست پھر ختم نہ ہوئی۔  پھر اچانک ن لیگ کی قیادت میں حرکت پیدا ہوئی تنقید کرنی شروع  کی  تو مٹھرے اینکرز نے پھر کہا کہ نام کیوں نہیں لیتے؟ ابھی یہی مطالبے نما سوالات جاری تھے کہ  یہ سفر آن پہنچا گوجرانوالہ کے جلسے تک۔۔۔۔ جہاں نواز شریف نے نام بھی لے دیا۔ سیدھا کہا باجوہ صاحب یہ سب آپ کے ہاتھ سے ہوا ہے۔

اب اسکے بعد سے صورتحال  کچھ یوں ہے کہ میڈیا کے یہ پھپولے جن کو اینکرز کہا جاتا ہے اب زمین میں سر دھنسا کر بیٹھے ہیں۔ جنکو سر دھنسانا نصیب نہیں ہوا وہ یوں مدہوش ہیں اور دیوانوں کی سی ہنسی ہنس کر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے۔ نواز شریف پاگل ہے۔ تیاری مکمل نہیں۔ انکی پارٹی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ ایسے کیسے چلے گا۔ پاکستان کواتنے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت کیا کر رہا ہے۔  غدار ہوگیا ہے نواز شریف بھارتی لابی کے ساتھ ملا ہوا ہے۔  وغیرہ وغیرہ۔۔۔

سو یہ اوقات ہے ان کرائے کے بھاشن بھازوں کی جو ہر روز ڈو مور کے راگ الاپا کرتے تھے۔ اور افسوس اس بات کا کہ اہل سیاست تو اب وہ کر رہے ہیں کہ جو کبھی اس ملک میں نہ ہوا تھا۔ البتہ صحافتی لگڑ بگڑ کہیں دور تک نظر نہیں آتے۔

نواز شریف نے چند دن پہلے انکی لندن کی رہائش گاہ کے باہر اکھٹے ہوئے صحافیوں کے ایک غول کو سوال کرنے پر کہا تھا بول تو میں پھر دوں گا۔۔ آپ چلانے کی ہمت کر پائیں گے؟