اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو سال کے تھے جب سے احتساب کے نام پر انتقام ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام مقدمات جن میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو صاحبہ کو نامزد کیا گیا، ایک ایک کر کے ان میں ان کو بری کر دیا گیا لیکن افسوس کہ وہ یہ دن دیکھنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج تھوڑی بہت جو جمہوریت موجود ہے، اس میں پیپلز پارٹی کے لیڈرز اور کارکنان کی قربانیوں کا کردار سب سے اہم ہے۔
شہباز شریف نے بھی اس اجلاس سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں آّگے بڑھ کر حصہ لیا اور یہ نواز شریف کا لانگ مارچ ہی تھا جس نے عدلیہ کی بحالی یقینی بنائی لیکن اسی عدلیہ سے بہت سی شکایتیں بھی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج کی کل جماعتی کانفرنس کے بعد چند روز میں پیپلز پارٹی بھی ایک کل جماعتی کانفرنس کی میزبانی کرے گی اور اس میں انہیں امید ہے کہ تمام اپوزیشن اکٹھی ہو کر پہلے پارلیمنٹ کو اور پھر ملک کو آزاد کروانے کے حوالے سے فیصلے کرے گی۔ شہباز شریف نے بھی اس کانفرنس کو پری آل پارٹیز کانفرنس قرار دیا۔
اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں انتہائی اہم مطالبات کیے گئے ہیں جن پر ایک تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ:
- ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار غیر تسلی بخش ہے۔ 19ویں ترمیم کو ختم کیا جائے
- احتساب کا نیا قانون بنایا جائے
- صحافیوں پر بغاوت کے مقدموں اور لاپتہ کیے جانے کی شدید مذمت
اپنی تقریر کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا کہ 19ویں آئینی ترمیم اس لئے پاس ہوئی کہ پارلیمان کے اوپر دباؤ ڈالا گیا۔ اسے دھمکی دی گئی کہ اگر یہ ترمیم پاس نہ ہوئی تو 1973 کا آئین ہی ہٹا دیا جائے گا۔
یہ اعلامیہ بلاشبہ شہری حقوق کے سلب کیے جانے کے خلاف ایک بھرپور آواز ہے۔ لیکن دوسری جانب اپوزیشن کی حالیہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو لگتا نہیں کہ یہ تمام جماعتیں یکسوئی کے ساتھ کچھ بھی حاصل کرنے کے لئے اکٹھی ہو پائیں گی۔ FATF سے متعلق انتہائی اہم قوانین پر ہونے والی قانون سازی کے وقت تو عددی اکثریت رکھنے کے باوجود اپوزیشن ارکان اجلاس میں آنے میں ناکام رہے۔ ایسے حالات میں یہ تصور کرنا کہ اپوزیشن ملکی مفاد میں کوئی سیاسی تحریک چلا کر اسے کامیاب کرا سکتی ہے، کارِ محال ہی ہے۔