آل پارٹیز کانفرنس کی پٹاری سے کیا نکلا؟

آل پارٹیز کانفرنس کی پٹاری سے کیا نکلا؟
بجٹ سیشن کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ آگے بڑھانے کی کوشش ضرور کی لیکن مولانا فضل الرحمان نہ مانے اور کانفرنس بدھ 26 جون کو ہی ہو کر رہی۔ بلاول بھٹو کا ایک پاؤں قومی اسمبلی میں، ایک پاؤں احتساب عدالت اور ایک پاؤں آل پارٹیز کانفرنس میں رہا۔

مولانا ضرور چاہتے تھے کہ تمام جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دے دیں لیکن نہ تو پی پی اس کے لئے تیار تھی اور نہ ن لیگ۔ سڑکوں پر بھرپور تحریک چلانے میں بھی دونوں بڑی جماعتیں فوری طور پر تیار نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں شدید گرمی کی وجہ سے فوری بڑی تحریک کامیاب نہ ہوگی۔ معاشی بدحالی کے اثرات عوام پر ظاہر ہونے میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ اس لئے ستمبر سے پہلے یہ جماعتیں کسی بڑی عوامی سرگرمی کے لئے تیار نہیں۔

باوجود مولانا کے اصرار کے کہ عمران خان کے بعض مواقع کے مذہبی معاملات پر غیر ذمہ دارانہ بیانات کی مذمت کی جائے، بلاول بھٹو کی مداخلت کی وجہ سے ایسا ہو نہ سکا۔ بلاول ہر صورت میں سیاسی جدوجہد میں مذہبی اور فرقہ ورانہ تنازعات کو شامل کرنے کے مخالف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے کئی رہنما مذہبی معاملات کو اپنے سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔



کانفرنس کے اختتام پر اہم فیصلہ تو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رخصتی کا ہے۔ سنجرانی نے حال ہی میں سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود تمام جماعتیں بدھ کے روز انہیں ہٹانے پر آمادہ ہو گئیں۔ ان کو ہٹانے کے لئے البتہ فوری طور پر تحریک عدم اعتماد لانے کی بجائے پہلے ایک قرارداد لانے کی بات کی گئی ہے۔ قرارداد دراصل معاہدے کی بجائے مفاہمت کی یادداشت لگتی ہے۔ مطلب فیصلے کی بجائے ارادے کو ظاہر کرنا ہے۔ یہ ایک طرح سے مقتدر حلقوں کے ساتھ پیغام رسانی کی ایک کوشش لگتی ہے۔ یہ پیغام رسانی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لئے ہمیں لمبا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

اس وقت حزب اختلاف کے پاس سنجرانی کو ہٹانے کے لئے اراکین کی مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن حزب اختلاف اس کے لئے بہتر وقت کے انتظار میں ہے۔ اس تبدیلی کو بھاؤ تاؤ کے لئے استعمال کرنا بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

سنجرانی کا انتخاب مقتدر حلقوں، پی پی اور پی ٹی آئی کی مشترکہ کاوش تھی۔ اس وقت ن لیگ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے تیار تھی لیکن اب کیونکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ سینیٹر چیئرمین کے عہدے پر فائز ہیں اس لئے غالب امکان یہ ہے کہ اگر تبدیلی کے فیصلے پر عمل ہوا تو حاصل بزنجو حزب اختلاف کے امیدوار ہوں گے۔

پچھلے سال عام انتخاب کے دن، 25 جولائی کو یوم احتجاج کا فیصلہ ہوا ہے۔ حزب اختلاف کے لئے ایک دن احتجاج کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ البتہ آل پارٹیز کانفرنس نے اس دن کو احتجاجی تحریک کا آغاز قرار دیا ہے لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ن لیگ سمیت اکثر جماعتیں ستمبر کو ستمگر بنانا چاہتی ہیں۔ ستمبر، اکتوبر اور نومبر اہم مہینے ہیں۔ ان مہینوں میں ملک کے اندر اور باہر اہم فیصلے متوقع ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور پاکستان میں بری فوج کے سربراہ کی تبدیلی یا توسیع بھی اسی عرصے میں متوقع ہے۔

یہی وہ وقت ہے جب پی ٹی آئی حکومت کو سوا سال ہو چکا ہوگا اور اس کی معاشی پالیسیوں کے اثرات عوام پر بھرپور طور پر ظاہر ہو چکے ہوں گے۔

اگر عوام کی بگڑتی ہوئی معاشی اور معاشرتی صورتحال اور خراب طرزِ حکمرانی کو عمران سرکار روکنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ صورتحال ایک ایسی دھماکہ خیز صورتحال کو جنم دے سکتی ہے جسے کوئی ایک چنگاری پورے نظام کو بھسم کر ڈالے۔

آل پارٹیز کے اعلامیہ کے لئے ایک جملہ ہی کافی ہے۔ اس کی اکثر شقوں کا نشانہ اسلام آباد نہیں بلکہ پنڈی ہے۔

ایگزیکٹو ایڈیٹر