انیسویں ترمیم ختم، ففتھ جنریشن وار فئیر میں شہری آزادیاں سلب کرنا بند کیا جائے: اے پی سی

انیسویں ترمیم ختم، ففتھ جنریشن وار فئیر میں شہری آزادیاں سلب کرنا بند کیا جائے: اے پی سی
سڑک پر جگہ نہ ملنے کے بعد صُبح بارہ بجکر ستاون منٹ پر میریٹ ہوٹل کے لیے مُختص پارکنگ میں گاڑی چھوڑ کر ایک بجے کُل جماعتی بیٹھک کے لیے مُختص ہال میں داخل ہوا تو میزبان وُکلا، انسانی حقوق تنظیموں کے کارکنوں اور میڈیا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ججز تقرری طریقہ کار، احتساب اور شخصی آزادیوں کے موضوع پر پاکستان بار کونسل کی بُلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں البتہ ابھی سیاستدانوں میں سے صرف جے یو آئی ف کے سینیٹر عبدالغفور حیدری اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر  عبدالمالک بلوچ موجود تھے۔ سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے پروفیسر عمار جان بلوچ اور صحافی آئمہ کھوسہ بھی ایک کونے میں بیٹھے تھے جبکہ اینکر اور صحافی مُنیزے جہانگیر ہال میں سب سے باری باری مُلاقاتوں میں مصروف تھیں۔ نوجوان وُکلا پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین عابد ساقی کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے۔ خاموشی سے ایک سائیڈ پر جاکر بیٹھ گیا تو ڈیجیٹل پلیٹ فارم وائس پی کے سے مُنسلک حیدر کلیم پہچان کر آگئے اور گپ شپ کرتے رہے جِس میں بعد ازاں آج ٹی وی کے پروڈیوسر عادل علی بھی شامل ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد پشتون تحفظ موومنٹ کے مُحسن داوڑ بھی ہال میں داخل ہوگئے۔

صحافی دوستوں حسنات ملک اور سینئر ساتھیوں مطیع اللہ جان بھائی اور ناصر اقبال بھائی پر نظر پڑی تو اُن سے بھی ملنے گیا اور اِس دوران چند نوجوان وُکلا نے بھی پہچان کر ثابت قدم رہنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ کُچھ دیر میں پیپلزپارٹی کے نوجوان چیرمین بلاول بھٹو بھی پہنچ گئے۔ بعد ازاں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے پہنچنے پر میزبان پی بی سی نے شُرکا کو لنچ کی دعوت دی تو بھوک کے باوجود دِل لنچ ہال کی طرف جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ خاموشی سے رش سے الگ ہوکر نکلا اور میریٹ ہوٹل کے ریسٹورنٹ نادیہ پہنچا اپنے پیسوں کا برگر ٹھونسا اور چائے پی کر واپس اے پی سی والے ہال آگیا۔

 

واپس پہنچا تو کانفرنس شروع ہوچُکی تھی اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی اپوزیشن رہنماوں کے جُھرمٹ میں خطاب کررہے تھے۔ عابد ساقی کے دائیں ہاتھ دو سابق صوبائی وزراعلیٰ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، جے یو آئی ف کے سینیٹر عبدالغفور حیدری، جماعتِ اسلامی کے اسداللہ بھٹو اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جبکہ میزبان عابد ساقی کے بائیں ہاتھ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، سُپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قلبِ حسن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی، سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر امیر حیدر ہوتی، پشتون تحفظ موومنٹ کے ایم این اے مُحسن داوڑ اور دو سابق چیئرمین سینیٹ بالترتیب رضا ربانی اور نیئر بُخاری براجمان تھے۔ پاکستان میں وُکلا کی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے صحافیوں پر مُقدمات کی مُذمت کرتے ہوئے وُکلا کی کمیٹیاں بنانے کا اعلان کیا جو پاکستان بھر میں ضلعی سطح پر بھی جاکر کسی بھی صحافی پر درج ہونے والے مُقدمہ میں مُفت قانونی معاونت فراہم کریں گی۔

 

عابد ساقی کے بعد اسٹیج سیکریٹری اعظم نزیر تارڑ نے سینئر صحافی اور اینکر حامد میر سے چار نشستیں چھوڑ کر بیٹھے محمود گیلانی کو خطاب کی دعوت دی۔ محمود گیلانی نے بُلند آواز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم  اداروں کو مظبوط کرنا چاہتے تھے لیکن وہ پارلیمان کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ہیں اور اب ہمیں اُنہیں کھینچ کر واپس اُنکی جگہ پر لانا ہے۔ اُنکا مزید کہنا تھا کہ ایک جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کی مُبینہ کرپشن کا معاملہ ہے لیکن کوئی نام تک نہیں لے رہا۔ محمود گیلانی کے بعد عوامی ورکرز پارٹی کے یوسف مستی خیل کو خطاب کی دعوت دی گئی جنہوں نے دھیمے لہجے میں سخت موقف اپناتے ہوئے گِلہ کیا کہ ہم تو پاکستان کے پسے ہوئے طبقہ کے نمائندہ ہیں اِس لیے جی ایچ کیو ہمیں پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیتا۔ یوسف مستی خیل نے پاکستان کی پارلیمانی پارٹیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بھی پارلیمنٹ میں کردار ادا نہیں کیا۔ اُنہوں نے بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کسی اور کو چیئرمین سینیٹ چاہتے تھے لیکن بنا کوئی اور۔۔ یوسف مستی خیل نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر لگائے گئے طنز کے زخم پر ایک اور چوٹ لگاتے ہوئے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے تین سو پینسٹھ ووٹ نکلتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو دو سو ووٹ بھی نہ نکلے۔ عوامی ورکر پارٹی کے رہنما نے اپنا دُکھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو بلوچستان حقوق پیکج میں بھی لالہ مُنیر، شیر مُحمد اور غلام مُحمد تینوں کی لاشیں دی گئیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما یوسف مستی خیل نے واضح کیا کہ فوج کو بیرک میں بھیجے بغیر پاکستان میں کسی کو بھی اُس کے حقوق نہیں مِل سکتے۔

یوسف مستی خیل نے اِس موقع پر ہنستے ہوئے اے پی سی کے میزبانوں کو سُنائی کہ پاکستان میں کلاس کلچر اتنا زیادہ ہے کہ جب تک بڑی پارٹیوں کے نمائندے نہیں آئے تو آپ نے کھانا نہیں کھولا اور یہاں کرسیوں میں بھی تفریق کی۔ یوسف مستی خیل نے اپنی تقریر کے اختتام میں بڑی سیاسی جماعتوں پر ایک اور وار کیا کہ آپ سب کا احتساب ہوگا لیکن جنرل عاصم باجوہ کو کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ اُس کے پاس بندوق ہے۔ اِس کے بعد کسان مزدور اتحاد پارٹی کے افضل خاموش کی باری آئی۔ افضل خاموش کا کہنا تھا کہ ہمیں اِس پارلیمنٹ میں آنے کا شوق نہیں ہے کیونکہ ہم نے یہاں دو تہائی اکثریت والے نوازشریف کا حشر بھی دیکھ رکھا ہے۔ افضل خاموش کا کہنا تھا کہ ہم نے اُنکو بندوق خرید کردی تھی لیکن وہ ہم پر ہی افسر بن گئے ہیں اور ہم اُنکا نام تک نہیں لے سکتے بلکہ مولانا فضل الرحمان کی طرح نکے دا ابا کہہ کر بُلاتے ہیں۔ افضل خاموش نے اے پی سی کے شُرکا کو دعوت دی کہ ہم آج ون پوائنٹ ایجنڈا پر مُتفق ہوکر اُٹھتے ہیں کہ ہم مُلازم کی تنخواہ بڑھا دیں گے لیکن خود پر حاکم نہیں بنائیں گے۔

افضل خاموش کے بعد عبدالحئی بلوچ کو خطاب کی دعوت دی گئی تو بُزرگ عبدالحئی بلوچ نے کھڑے ہوکر جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اب بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ جو بھی بات کرے لاپتہ کردو۔ عبدالحئی بلوچ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صحافی لاپتہ کرو، مولوی لاپتہ کرو، سماجی کارکن لاپتہ کرو، دانشور لاپتہ کرو، خُدارا اِس نوآبادیاتی نظام سے جان چُھڑواو۔ بُزرگ بلوچ رہنما کا سوال اُٹھا کہ آخر کب یہ نیشنل اسکیورٹی اسٹیٹ ختم ہوگئی؟ عبدالحئی بلوچ نے اسٹیج کی مرکزی نشستوں پر بیٹھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ سلیکٹد نہیں سلیکٹر ہے اور آپ لوگوں کی مصلحت پسندی کی وجہ سے مُلک میں جمہوریت نہیں بحال ہورہی۔ عبدالحئی بلوچ نے بڑی سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ وزیراعظم تو آُپ لوگوں نے بننا ہے ہم نے نہیں بننا لیکن آپ لوگ کھڑے تو ہوں ہم آپ سے دو قدم آگے کھڑے ہوکر لڑیں گے۔

بلوچ رہنماوں کی طرف سے اداروں کے سربراہوں کے نام لے کر جب سخت تنقید کی جاتی تھی تو اے پی سی کے میزبان عابد ساقی مُسکرا رہے ہوتے تھے جبکہ بلاول بھٹو زرداری خاموشی سے تقریر کرنے والے کا چہرہ دیکھتے رہتے تھے اور شہباز شریف چائے کے کپ کی تیز تیز چُسکیاں لینے لگ جاتے تھے۔

 

 

بلوچ رہنماوں کے بعد اسٹیج سیکریٹری اعظم نذیر تارڑ نے پختون بیلٹ کا رُخ کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے مُحسن داوڑ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ مُحسن داوڑ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہاں لوگ حلف لے کر آتے ہیں کہ سیاست نہیں کریں گے لیکن ساری عُمر سیاست کرتے ہیں۔ مُحسن داوڑ نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ڈیم بنانے پر لگی ہوئی ہے اور انتظامی امور میں گُھسی ہوئی ہے۔ مُحسن داوڑ کا مزید کہنا تھا کہ سیاستدانوں کی کرپشن پر پورا میڈیا پیچھے لگا دیا جاتا ہے تاکہ تاثر دیا جاسکے کہ سیاستدان ہی سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ پی ٹی ایم رہنما کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ صحافیوں ابصار عالم اور اسد علی طور پر غداری کے مُقدمے قائم کیے جارہے ہیں لیکن جنرل اسد دُرانی بھارتی جرنیل کے ساتھ مِل کر کتاب لِکھتا ہے اور کوئی مُقدمہ قائم نہیں ہوتا۔ مُحسن داوڑ کے بعد بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کو مائیک دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو سیاسی جماعتیں بناتے ہیں؟ اُنہوں نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے درخواست کی کہ کم از کم آپ اپنے ہاں تو یہ پوسٹنگ اور ٹرانسفرز رُکوائیں۔ اپنی جماعت کی مثال دیتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلاچستان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک دو لوگ غلط تھے اُنکو نکالا تو سب ٹھیک ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے کہا تھا کہ آپ بھی تین تین لوگوں کو نکالیں تو کام بن جائے گا۔ اب سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور عوامی نیشنل پارٹی امیر حیدر ہوتی کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ ججز تب تک انصاف نہیں کرسکتے جب تک وہ بیرونی دباو سے آذاد نہیں ہوں گے۔

امیر حیدر ہوتی کا کہنا تھا کہ ہم اعلیٰ اخلاقی پوزیشن اُس وقت لے سکیں گے جب میں جو آج اِدھر بیٹھ کر کہہ رہا ہوں وہی بات حکومت میں بیٹھ کر بھی کروں۔ اِس کے بعد بلوچستان کے پختونوں کی نمائندہ جماعت پختون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجتماع اگر چاہے تو حکومت گرا سکتا ہے۔ محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور یہاں کوئی فاتح اور مفتوح نہیں ہے۔ محمود اچکزئی نے کُل جماعتی بیٹھک کے شُرکا سے سوال پوچھا کہ یہ اجتماع ہمیں بتائے کہ یہ آئین ایک کاغد کا ٹُکڑا ہے یا اِس نے ہمیں مُتحد رکھا ہوا ہے؟ بلوچستان کے پختون رہنما کا مزید کہنا تھا یہ آئین مُجھے بدین، تھر اور تُربت کے رہائشیوں سے جوڑتا ہے لیکن اگر آپ اِس آئین کو نہیں مانیں گے تو پاکستان نہیں چلے گا۔ محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم اِس مُلک میں دوسرے درجے کے شہرے بن کر نہیں رہیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس آئین میں آرٹیکل چھ بھی ہے اور حلف بھی ہے کہ آپ بھرتی ہوکر سیاست نہیں کریں گے۔ محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو اِس آئین سے طاقت حاصل کرنی ہوگی۔ محمود اچکزئی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کیا ہورہا ہے ہر صوبے کا انتظام کور کمانڈر چلا رہے ہیں جبکہ ججز کے پیچھے بھی میجر بیٹھے ہوئے ہیں۔

محمود اچکزئی نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو مُخاطب کرکے کہا کہ بلاول آپ نے ساتھ نہ دیا تو ہم خود تحریک شروع کریں گے۔ محمود اچکزئی نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اِس آئین کی رو سے کسی کرنل کا کردار قبول نہیں کرنا اور ہم نے بلاول بھٹو اور شہباز شریف کی سول آمریت کا راستہ بھی روکنا ہے۔ محمود اچکزئی نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جو جج یا جرنیل اِس آئین کو نہیں مانتا اُس سے بغاوت کرنی ہوگی۔ محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ جِس دن مُلک میں صدارتی نظام مُسلط کرنے یا اٹھارہویں ترمیم رول بیک کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ پاکستان کی بربادی کا دِن ہوگا اور بلوچ اور پختون پورے مُلک کی سڑکوں پر ہوں گے نئے آئین کا مُطالبہ کریں گے۔

محمود اچکزئی نے تنبیہ کی کہ آپ نے فاٹا میں کیا نہیں کیا؟ بلوچستان میں کیا نہیں کیا؟ خدا کا نام مانو اب بس کردو اور اپنے لوگوں کو اپنے خلاف مت کرو۔ محمود اچکزئی اپنی تقریر پر اے پی سی کے شُرکا کے لیے سوال چھوڑ گئے کہ یہ مُلک بیس کروڑ لوگوں کے لیے ہے یا فوج کے لیے؟ اِس کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے جے یو آئی ف کے رہنما عبدالغفور حیدری کو دعوت دی۔ عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ف نے ہر آمر کے خلاف تحریک چلائی ہے اور صحافی حامد میر گواہ ہیں کہ بارہ اکتوبر کو جنرل مُشرف نے مارشل لا لگایا اور چوبیس اکتوبر کو جے یو آئی ف نے اجلاس بُلا کر مارشل لا کی مُذمت کی۔ سینیٹر عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ کیا اِس مُلک میں تنخواہ دینے والوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے؟ سینیٹرعبدالغفور حیدری کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا پر قدغنیں ہیں آج کی اے پی سی کی بھی کل کی اخبارات میں دو کالم خبر لگ جائے گی جبکہ احتساب کا نظام صرف سیاستدانوں کی پگڑیاں اُچھالنے کے لیے رہ گیا ہے۔

 

سینیٹر عبدالغفور حیدری کے بعد اے پی سی کے اسٹیج سیکریٹری اعظم نذیر تارڑ نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو خطاب کی دعوت دی تو سب صحافی سیدھے ہوکر بیٹھ گئے جبکہ کیمرہ مین بھاگتے ہوئے مرکزی نشستوں کے قریب کیمرہ لگانے لگ گئے۔ بلاول بھٹو نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے نام لے لیے کر کہا کہ اُنکے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا ذوالفقار علی بھٹو کو غدار کہنے والے آج اُنکو شہید کہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ لوگ بھی موجود ہیں جو محترمہ بینظیر بھٹو کو کرپٹ کہتے تھے لیکن آج شہید مانتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میڈیا پر ہمارے شہیدوں کی کردار کُشی ہوتی ہے لیکن یہ جو اِکا دُکا جمہوریت ہے یا مقبوضہ زمینوں پر کسان آج بھی موجود ہیں تو وہ سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے تحریکِ انصاف کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی مدینہ کی ریاست ہے جہاں رات کو تحفظ دینے والا موٹروے پر ریپ کرنے والوں کو نہیں بلکہ مظلوم خاتون کو ریپ کا ذمہٰ دار ٹھہراتا ہے اور تحریکِ انصاف کے وزرا سمیت وزیراعظم عمران خان اُس سی سی پی او کا دفاع کرنے میدان میں آجاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہماری شکایات تو نیب سے جاری رہتی ہیں لیکن آج میں بات کرنا چاہوں گا کہ میڈیا کے بہادر صحافی مطیع اللہ جان یہاں بیٹھے ہیں اور اسد علی طور بھی میرے نظر سے گُزرے ہیں یہ دونوں پابندیوں اور ہراسمنٹ کا شکار ہیں۔ بلاول بھٹو نے وُکلا اور میڈیا دونوں سے گلہ کیا کہ جب پیپلزپارٹی نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں اصولوں پر مبنی موقف آپ کے سامنے رکھا تو آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی افتخار چوہدری کا ساتھ دیا جِس سے اُس وقت کی عدلیہ ایک آمرانہ ادارے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بلاول بھٹو کا اے پی سی کے شُرکا سے سوال تھا کہ جب پیپلزپارٹی اینٹ سے اینٹ بجانے نکلی تھی تو سب کہاں تھے؟ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی آپشن تھا جِس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوتی لیکن اُس پر عمل نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اِس مُلک کو ڈنڈے کے زور پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بقول سہیل وڑائچ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ بلاول بھٹو نے حکومت پر برستے ہوئے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں آپ ایک کتاب نہیں لِکھ سکتے، ٹویٹ نہیں کرسکتے اور ٹی وی پر انٹرویو دو تو وہ کٹ جاتا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہا تھا کہ ہم نے بہت قربانیاں دے لیں اب قُربانیوں کا حساب چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے بعد ن لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ شہباز شریف نے بلاول بھٹو کی خاندان کی قُربانیوں والی بات دہراتے ہوئے کہا کہ پورا مُلک کو بھٹو خاندان کی قربانیوں کا گواہ ہے۔ ن لیگ کے صدر کا کہنا تھا کہ اِس مُلک میں ایک طرف جسٹس کانیلیس جیسے جج تھے اور اب ارشد ملک جیسے جج ہیں تو اتنا اُتار چڑھاو کیوں ہے؟ شہباز شریف نے اِس کی وجہ آمروں کی آئین میں کی گئی ترامیم کو قرار دیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمان بھی ایسی قانون سازی نہیں کرسکی کہ جِس سے ججز کو تحفظ ملتا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آمروں کے بغیر مانگے بھی عدلیہ اُنہیں آئین میں ترمیم کا اختیار دیتی رہی جو ہماری تاریخ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں لیکن یہ تماشا اب کب تک دیکھیں؟ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ میڈیا پر جو پابندیاں ہیں اِس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

شہباز شریف نے طنز کے ساتھ میڈیا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے صحافیوں اور اینکروں نے قُربانیاں دے کر میڈیا کو آذادی دلوائی لیکن پچھلے دو سال میں میڈیا جِس روش پر چل پڑا تھا اب اُس سے واپس آتے ہوئے مُشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز میڈیا کی جدوجہد میں اُنکے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کابینہ میں بیٹھے آدھے سے زیادہ لوگوں کا احتساب ہوتو وہ بچ نہ سکیں لیکن میں کسی پر اُنگلی نہیں اُٹھانا چاہتا۔

اِس کے بعد سُپریم کورٹ بار کے صدر نے اے پی سی کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے کہا کہ آپ لوگ آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں وُکلا آپ کے ساتھ ہوں گے اور آُپ کو معلوم ہونا چاہیے وُکلا قدم اُٹھا لیں تو اُنکے قدم آگے ہی بڑھتے ہیں واپس نہیں اُٹھتے۔

 

اے پی سی نے مُتفقہ اعلامیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا ادارہ بدقسمتی سے ججوں کا کنسورشیم بن گیا ہے۔  اے پی سی نے اُنیسویں آئینی ترمیم ختم کرکے ججز کی تقرری کا نیا فورم بنانے کا مُطالبہ بھی کیا۔ اِس کے علاوہ اے پی سی اعلامیہ میں مُلک میں موجودہ احتساب کے نظام کو ناکام اور مُتنازعہ بتاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ سیاسی انجینئرنگ کے آلہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے جِس کی شدید مُذمت کی جاتی ہے۔   کانفرنس اعلامیہ نے مُلک میں شہری آذادیوں، اظہارِ رائے کی آذاری، آذادیِ صحافت اور شخصی آذادیوں کی بگڑتی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا۔ اجلاس نے صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مُقدمات، میڈیا ہاوسز پر پابندیوں اور ریاسی بیانیہ کے برعکس دوسرے بیانیہ کا اظہار کرنے والوں کو لاپتہ کرنے کی شدید مُذمت کرتے ہوئے صحافیوں کی حفاظت کے لیے فوری قانون سازی کا مُطالبہ کیا۔ اے پی سی کے مُتفقہ اعلامیہ میں ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں شہری آذادیوں اور بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی مُذمت کرتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کا مُطالبہ بھی کیا۔ اعلامیہ میں اے پی سی کے تمام شُرکا نے سیاست میں فوج کے بڑھتے عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا اور مُطالبہ کیا کہ فوج مُلک کی سیاست میں کسی قسم کی مُداخلت ہرگز نہ کرے۔

اے پی سی ختم ہوئی تو سینئر صحافی اور آج کل غداری کی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد ابصار عالم صاحب کے ساتھ گپ لگاتا ہوٹل سے باہر آگیا

دلچسپی کی بات ہے دو رہنماوں کے علاوہ تقریباً ہر سیاسی رہنما نے اپنی تقریر میں چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کی مُبینہ کرپشن سے بنی اربوں کی جائیدادوں اور کاروبار کا تذکرہ کیا لیکن اعلامیہ میں اُن کے احتساب کا کوئی مُطالبہ شامل نہیں تھا۔