صدر عارف علوی نے تصدیق کی ہے کہ مختلف 'stakeholders' کے درمیان خفیہ ملاقاتیں جاری ہیں تاکہ ملکی سیاست کو بند گلی سے نکالا جا سکے۔ عارف علوی جو کہ خود کو عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف تند و تیز بیانات سے واضح طور پر علیحدہ کر چکے ہیں پرامید ہیں کہ ان کی کوششیں رنگ لائیں گی۔ عمران خان کے بیانات اور ان کے اعمال سے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ ان کوششوں سے باخبر ہیں گو کہ وہ ظاہری طور پر اپنے جلسوں میں اس کے برخلاف بات کر رہے ہیں۔
دو چیزوں پر معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ نومبر میں نیا آرمی چیف کون لگائے گا اور ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے۔
پی ڈی ایم بجا طور پر اسرار کرتی ہے کہ نومبر 2022 میں نیا آرمی چیف لگانا یا موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنا وزیر اعظم شہباز شریف کا آئینی اختیار ہے۔ وہ اگست 2022 تک اپنی مدت بھی مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہر حال میں مارچ 2023 سے پہلے پہلے ہو جانے چاہئیں اور نیا آرمی چیف نئی حکومت کو ہی لگانا چاہیے جو کہ الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آئے اور انہیں لگتا ہے کہ وہ حکومت ان کی ہی ہوگی – ان کا ماننا ہے کہ آرمی چیف اگر 'امپورٹڈ حکومت' نے لگایا تو یہ ملکی مفادات کے خلاف ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہر حال میں اگلے دو ماہ کے اندر یعنی نومبر سے پہلے تحلیل کر دی جائے تاکہ ایک عبوری حکومت وجود میں آ سکے۔ لیکن یہ نگران حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ اگلے منتخب وزیر اعظم کے اقتدار سنبھالنے تک 'التوا' میں ڈال دے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہی ہے کہ جنرل باجوہ کو یوں ایک اور توسیع دے دی جائے حالانکہ وہ دوسری مرتبہ توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔
یہ ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے تک عمران خان جنرل باجوہ کو 'نیوٹرل' ہو جانے پر غلیظ القابات سے نواز رہے تھے۔ اب وہ مشورہ دے رہے ہیں کہ انہیں اگلے انتخابات تک توسیع دے دی جائے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کسی حد تک مفاہمت کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ڈی ایم سیاسی ماحول میں تبدیلی کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے حکومت کے اوپر جلد عام انتخابات کے لئے 'دباؤ' کی شکایت کرتے ہوئے سب کے لئے ہموار سیاسی میدان کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ لوگ حیران ہیں کہ جب پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے یہ طے کر لیا تھا کہ یہ 'قومی مفاد' میں IMF پروگرام کے لئے مشکل فیصلے کرے گی اور اسے اگلے سال کے آخر تک غصیلے ووٹرز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اس دوران یہ معیشت کو ٹھیک کر کے ووٹر کی حمایت واپس حاصل کرنے کی کوشش کرے گی؟ ظاہر ہے ووٹرز اس وقت پی ڈی ایم کے خلاف جتنے غصے میں ہیں، جلد انتخابات کی صورت میں تو PTI سوئیپ کر کے PDM کا صفایا کر دے گی۔ تو پھر یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟
ایک طرح سے ہم گھوم پھر کر وہیں واپس آ گئے ہیں۔ PDM نے رواں برس کے آغاز میں عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا تھا تاکہ یہ اپنے 'پسندیدہ' جرنیل کو نومبر میں آرمی چیف نہ بنا سکیں۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ دونوں مل کر اگلے الیکشن میں بھی دھاندلی کریں گے اور کم از کم اگلے پانچ سال تک اقتدار سے چمٹے رہیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی بحث اسی نکتے پر ہو رہی ہے کہ اگلا چیف کون لگائے گا اور یہ کس کا 'پسندیدہ' ہوگا، حالانکہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ آرمی چیف صرف 'اپنا آدمی' ہوتا ہے یا پھر اپنے ادارے کا خواہ اسے اس طاقتور عہدے پر تعینات کرنے کے لئے کسی نے بھی 'پسند' کیا ہو۔
عمران خان دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اگلے ماہ ایک اور لانگ مارچ کر کے PDM حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کر دیں گے۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر یہ کامیاب نہیں ہوگا۔ دوسری جانب PDM بھی اپنی جگہ پر جم گئی ہے کیونکہ یہ 'سب کے لئے ہموار سیاسی میدان' دور دور تک تیار ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کے قائد نواز شریف جلا وطن ہیں اور ان کے اوپر لگائے گئے الزامات کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر ان کی سزا ختم کیے جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جب کہ عمران خان کی 'نااہلی' کے کیسز میں سست روی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر نام لے لے کر عمران خان کے حامیوں نے بہت سے جرنیلوں کو 'متنازع' بنا دیا ہے کیونکہ وہ بادی النظر میں عمران خان کے 'پسندیدہ' نہیں تھے، اور اس کا مقصد انہیں آرمی چیف کی دوڑ سے باہر کرنا تھا۔
آئینی راستہ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف آئینی طاقت استعمال کرتے ہوئے نومبر میں نئے آرمی چیف کا تقرر کریں اور اگلے اگست تک حکومت کریں جس کے بعد الیکشن ہونا ہی ہیں۔ اگر عمران خان اپنی مقبول عوامی مہم کے ذریعے شہباز شریف کو رخصے کرنے کے لئے زور لگائیں گے تو وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ سول حکومت کی مدد کے لئے فوج کو طلب کر لیں۔ لیکن آئین کو تو گذشتہ سالوں میں جرنیلوں، ججوں اور سیاستدانوں نے پھیتی پھیتی کر چھوڑا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ ہی فیصلے لیتی ہے۔ لہٰذا یہ کسی نہ کسی طرح ہم پر ایک اور 'ہائبرڈ' حکومت مسلط کر دے گی اور ہم جلد یا بدیر ایک نئے بحران میں داخل ہو جائیں گے۔
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ دو لوگ جن میں سے ایک ماضی میں دوسرے کا بہت بڑا احسان مند رہا ہے، ان کی ذاتی خواہشات، اختلافات اور ارادے اس وقت 24 کروڑ بے یار و مددگار انسانوں کے اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں جو دن بدن قرضوں اور مایوسی تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ کب تک ہم عوام ان کی خدمت میں کھڑے رہیں گے؟ کیا یہ قدرتی آفت جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ایک نئی 'رجیم چینج' کا پیش خیمہ ثابت ہو کر ملک میں لاقانونیت اور انارکی کا بیج بو جائے گی؟
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔