اردو ادب کے نامور نقاد، ادیب اور مورخ، کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جمیل جالبی طویل علالت کے بعد 89 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔
جمیل جمیل 1929ء میں بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا اصل نام جمیل خان تھا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی، 1943ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سہارنپور سے میٹرک کیا جس کے بعد میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ء میں بی اے کیا۔
جمیل جالبی نے بچپن میں یہ ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا، انہوں نے بارہ برس کی عمر میں ’’سکندر اور ڈاکو‘‘ کے نام سے کہانی تحریر کی جسے بعدازاں سکول میں بطور ڈرامہ پیش کیا۔
تقسیم کے بعد جمیل جالبی خاندان سمیت پاکستان منتقل ہو گئے اور انہوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ جمیل جالبی نے 1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ انہیں 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کا سربراہ تعینات کیا گیا۔
جمیل جالبی 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی رہے۔
جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل "بنات‘‘ اور "عصمت‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’جانورستان" تھی جو جارج آرول کے عالمی شہرت یافتہ ناولٹ ’’اینیمل فارم‘‘ کا ترجمہ تھا۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم کیے جن میں ’’ایلیٹ کے مضامین‘‘ اور ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ نمایاں ہیں۔
کتاب ’’پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ‘‘ جمیل جالبی کی شخصیت کا ایک اہم حوالہ ہے جس کے اب تک آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
جمیل جالبی کی تصانیف و تالیفات میں ’’نئی تنقید‘‘، ’’ادب، کلچر اور مسائل‘‘، ’’معاصر ادب‘‘، ’’مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘‘، ’’دیوان حسن شوقی‘‘، ’’دیوان نصرتی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
’’قدیم اردو کی لغت‘‘، ’’فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ‘‘ اور ’’پاکستانی کلچر کی تشکیل‘‘ بھی جمیل جالبی کی اہم تصانیف ہیں۔