پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل کے حق میں آج ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا اعلان کردیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے زیراہتمام وکلاء کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس میں وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ وکلاء برادری مسلسل پارلیمنٹ سے بھی قانون سازی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے ذریعے قانون سازی وکلاء کے مسلسل مطالبے کے تحت کیا۔ہم پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے بتایا کہ سوموار 17 اپریل کو سپریم کورٹ بلڈنگ میں پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلوں کے عہدیداران کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ازخود نوٹس کے اختیارات چیف جسٹس صاحبان اپنے لئے استعمال کرتے رہے۔ چیف جسٹس صاحبان کے ازخود نوٹس کے اختیار کے استعمال سے ملک کو نقصان ہوا۔
ہارون الرشید نے کہا کہ پنجاب اور کے پی انتخابات کا معاملہ ہائیکورٹس میں زیر التواء تھا۔ سپریم کورٹ کو اصل از خود نوٹس تو غیر ضروری طور پر دو اسمبلیوں کی تحلیل پر لینا چاہیے تھا۔ مگر اس کے برعکس ایک جماعت کی مرضی آگے چلاتے ہوئے دو ججز کے از خود نوٹس پر انتخابات کا از خود نوٹس لیا گیا۔
وائس چیئرمین بار کونسل کا کہنا تھا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بحالی تک وکلا احتجاج کرتے رہیں گے کیوں کہ ہمارا مقصد ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں کی کمیٹی کو سونپا ہے جو بالکل درست ہے۔ اگر بل پر حکم امتناع ختم نہ کیا گیا تو ہم ملک بھر میں کانفرنسز کریں گے اور تحریک چلائی جائے گی۔
اس موقع پر سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکلا برادری 2 دہائیوں سے از خودنوٹس میں اپیل مانگ رہی ہے. حکومت کے بل میں وکلا کے مطالبات منظور کئے گئے ہیں.سپریم کورٹ کی فل باڈی نے گزشتہ سال پانچ ججز کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 بل سے مفاد عامہ اور عدلیہ کی آزادی حاصل ہوگی، سینیئر ججز نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے ججز کا بنچ بنا کر چیف جسٹس نے مجوزہ قانون سازی کو معطل کردیا۔
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے کہا کہ ایک جماعت کے ترجمان جو اپنے خاندان سمیت سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے وہ آج کل دن رات وکلا تحریک کی بات کررہے ہیں۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ میں 6 ججز وہ تھے جو سینیارٹی کے اصول کے خلاف عدالت عظمیٰ میں تعینات ہوئے ہیں تو یہ فیصلہ کیسے درست مانا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو معطل کرنے کے فیصلے کو وکلاء برادری تسلیم نہیں کرتی۔
وکلا تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست دانوں کو سیاسی بحران کا حل نکالنے دے، عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو معطل کرنے کا فیصلہ واپس لے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر مجوزہ قانون سازی معطل کرنے کا فیصلہ واپس نہ کیا تو پورے ملک میں جمہوریت اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک چلائیں گے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو معطل کرنے کے خلاف منگل کو پورے ملک میں یوم سیاہ منایا جائے گا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ایکٹ بننے سے قبل ہی اس پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا۔ نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔
حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل تھا جسے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔ حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کےلیے مقرر کی گئیں۔