'اسٹیبلشمنٹ فی الحال عمران خان کو اقتدار میں واپس لانے کا رسک لینے کو تیار نہیں'

'اسٹیبلشمنٹ فی الحال عمران خان کو اقتدار میں واپس لانے کا رسک لینے کو تیار نہیں'
اسٹیبشلمنٹ عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکومت کے بعد قائل ہو چکی ہے کہ وہ اندرونی اور بیرونی معاملات سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے عمران خان کو واپس لانے کا رسک لینے کو فی الحال کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ کہنا ہے صحافی کامران یوسف کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں انہوں نے کہا کہ ججوں کی تعیناتی میں جنرل باجوہ یا اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، پاکستان میں ججوں کی تعیناتی کے لئے پوری پوری لسٹیں بھی جی ایچ کیو سے آتی رہی ہیں۔ جنرل باجوہ کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جو انہوں نے کیے ہیں مگر بعد میں مکر گئے ہیں۔

ماہر قانون حیدر وحید نے کہا سپریم کورٹ میں اگر بات توہین عدالت تک آتی ہے تو وزیر، مشیر اور پارٹی کے دیگر لوگ اپنے لیڈر اور پارٹی کے لیے خوشی سے نااہل ہونا قبول کر لیں گے۔ اصل مسئلہ شہباز شریف اور ان کی سیاست کا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ شہباز شریف نا اہل ہو کر اپنی اور حمزہ شہباز کی سیاست کو خیرباد کہہ دیں گے، پارٹی کی صدارت کو چھوڑ دیں گے تو وہ یہ قربانی ہرگز نہیں دیں گے۔

دوسرے نمبر پر مشکل صورت حال سرکاری افسروں کے لئے ہو گی۔ کوئی بیوروکریٹ، الیکشن کمیشن کا چیئرمین یا کسی وزارت کا سیکرٹری سپریم کورٹ کے آگے نہیں کھڑا ہو سکتا۔ اس وقت سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ عمران خان کو کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں واپس آنے دینا۔ تخت یا تختہ کے اصول میں جمہوریت کی بات پیچھے رہ جاتی ہے۔ جان پہ آئے گی تو آئین اور جمہوریت کو عمران خان بھی کچرے کے ڈبے میں پھینکے گا اور شہباز شریف بھی۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا انٹیلی جنس سربراہان کی چیف جسٹس اور دو ساتھی ججوں کے ساتھ ملاقات تین رکنی بنچ کی درخواست پر ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب انہیں چیلنجز بتائے گئے تو ججوں نے کہا کہ حیرت ہے یہ باتیں ہمیں عدالت میں کیوں نہیں بتائی گئیں حالانکہ انہی کی ہدایت پہ یہ باتیں انہیں کھلی عدالت میں نہیں بتائی گئی تھیں۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔