حکومت کے 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی کی مشترکہ نیوز بریفنگ

حکومت کے 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی کی مشترکہ نیوز بریفنگ
سال 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 18 اگست 2018 کو تشکیل دی گئی تھی اور عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تھا۔ آج حکومت کو 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی نے مشترکہ نیوز بریفنگ کی جس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر اقتصادیات حماد اظہر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ثانیہ نشتر نے شرکت کی۔

نیوز بریفنگ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کر کے درست اور غلط کی سیاست شروع کی یہی بیانیہ ہم لے کر چل رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بنیادی مقاصد کو اپنا ہدف بنائیں، ہم وہ ریاست بنائیں جس میں عوام کی خدمت پہلی ترجیح ہو۔

شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان ایک غریب پرور شخص ہیں جن کی یہ سوچ ہے کہ ملک کو کس طرح آگے لے جایا جائے اور کس طرح ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور 2018 میں ہماری حکومت بننے کے بعد ان اہداف کا حصول ممکن ہوا جبکہ ہماری تمام پالیسیاں بھی اسی سوچ کے گرد گھومتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دے کر سیاست کو پیشہ بنا دیا گیا تھا جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔

وزارت اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کے تناظر میں ہمارا چیلنج صرف یہ نہیں کہ حکومت کی کامیابیوں کی تشہیر کی جائے بلکہ ہمیں اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑنا ہے۔ ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے، دشمن ہمیں ہر طرح کا نقصان پہنچانا چاہتا ہے، ہماری معیشت تباہ کرنا، ملک میں ناامیدی پھیلانا چاہتا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے وزارت اطلاعات عمران خان کی قیادت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر پاکستانی صحافی بن گیا ہے، اب ہمیں یہ جنگ پورے ملک کی سطح پر لڑنی ہے، جس میں ہر پاکستانی شریک ہوگا جس میں ہم کامیاب ہوں گے۔

نیوز بریفنگ میں وزارت خارجہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا۔ بھارت کی پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کیا جائے اور ہماری کوشش یہ تھی کہ پاکستان کی مؤثر نمائندگی کریں کیوں کہ گذشتہ ادواروں کے دوران ایک عرصے وزیر خارجہ ہی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے بہت سے فورم پر ہمارا نقطہ نظر پیش ہی نہیں ہو پایا تھا۔ لہٰذا ہماری کوشش تھی کہ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستیوں کو نئی جہت دی جائے اور نئے سمجھوتوں کو فروغ دیں جس کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی میں ناکامی ہوئی اور پاکستان کامیاب رہا اور جنوبی ایشیا کی تمام رکن ممالک بھارت کے توسیع پسندانہ ڈیزائنز پر معترض ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تو کہتا ہی تھا لیکن آج چین بھارت کے توسیع پسندانہ منصوبوں پر سوال اٹھا رہا ہے اور لداخ میں جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے، اسی طرح نیپال کی پارلیمان سے منظور ہونے والی قراردادیں آپ کے سامنے ہیں، بنگلہ دیش جسے بھارتی کیمپ تصور کیا جاتا تھا لیکن جب سے شہریت قانون آیا وہاں ایک سرد مہری دکھائی دے رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے اسٹریٹیجک شراکت داری رہی ہے لیکن ہم نے کوشش کی کہ ان اسٹریٹیجک شراکت داری کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔ دنیا بدل رہی ہے جس میں ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے اور اس کی ایک زندہ مثال سی پیک 2 ہے جس میں ہم نے واضح اہداف متعین کیے ہیں جس میں صنعتی انقلاب، زرعی پیدوار میں فروغ، تخفیف غربت اور انسانی وسائل کی ترقی شامل ہے۔

اسی طرح ترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں جہاں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر نیا معاشی اور مالیاتی فریم ورک تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپیئن یونین پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا اسٹریٹیجک منصوبہ طے پایا، علاوہ ازیں افریقہ پر ہماری توجہ نہیں تھی لیکن تعلقات بہت اچھے تھے چنانچہ ہم نے وہاں تجارت اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی منصوبہ بندی کی۔

وزیر خارجہ نے کہا وزیراعظم عمران خان نے پوری ترقی پذیر دنیا کے لیے قرضوں میں ریلیف کا خیال پیش کیا جس پر جی 20 نے کچھ اقدامات کیے اور نیویارک میں ایک پارٹنر شپ تشکیل دی گئی تاکہ ہم مالی اسپیس کے لیے سمجھوتوں کو مزید فروغ دیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمان ملکوں میں انڈراسٹینڈنگ کی جائے تاکہ تمام مسلمان ممالک ایک ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے لیکن وزیراعظم مسلسل کہتے رہے کہ افغانستان کا صرف سیاسی حل ممکن ہے بالآخر دنیا قائل ہوئی اور آج ساری دنیا ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے اور ہم پر امید ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز ہوگا جس سے امن کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، لیکن اسے عمران خان کی حکومت میں اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا اور آج کوئی ایسا بین الاقوامی فورم یا موقع نہیں جسے ہم نے کشمیریوں اور پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نے کشمیر پر 2 رپورٹس شائع کیں، جس میں بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے، او آئی سی کے 4 اجلاس ہوئے جس میں کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ساتھ ہی ہم نے دفتر خارجہ میں کچھ ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں جن میں وزیر خارجہ ایڈوائزری کونسل، اس کا مقصد تھنک ٹیکنکس سے تازہ ان پٹ حاصل کیا جائے اور تجربہ کار سفارتکاروں کو بھی اس سے منسلک کیا جائے۔ اس کے ساتھ 24/7 کرائسس منیجمنٹ سیل بنایا گیا جس کے تحت وزارت سمندر پار پاکستانی اور این سی او سی کے تعاون سے 478 پروازوں کے ذریعے 2 لاکھ 14 ہزار پاکستانی جو بیرونِ ملک پھنسے ہوئے تھے انہیں واپس لایا گیا۔

علاوہ ازیں پبلک ڈپلومیسی شروع کی گئی جس کے تحت 79 ممالک میں 86 پاکستانیوں کو اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے کووِڈ 19 کے دوران ان معاشروں میں اپنی خدمات پیش کیں اور پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنایا، دفتر خارجہ میں اسٹریٹیجک کمیونیکیشن ڈویژن بھی بنایا گیا ہے تاکہ پاکستان کے بیانیے کی ترویج دی جائے۔ سٹیٹ آف دی آرٹ فارن سروس اکیڈمی بنائی گئی جس کا نیا نصاب ترتیب دیا گیا اور اسے چین کے پرانے سفارتخانے میں منتقل کیا گیا جو ہمیں تحفے میں دیا گیا ہے اور اربوں روپے کی جائیداد ہے۔

مزید برآں ای ویزا سہولت اور ایف ڈائریکٹ ایپ بنائی گئی جس کے ذریعے جونیئر، سینئر کوئی بھی افسر سرخ فیتے کو کاٹ کر مجھ سے براہ راست اپنا ان پٹ شیئر کرسکتا ہے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ملک کی دو سالہ معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تھی تو بحرانی کیفیت تھی اندرونی اور بیرونی خسارے تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی اور برآمدات کی شرح صفر جبکہ 20 ارب روپے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر نصف ہوگئے تھے جس کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے لیے حکومت نے بڑے اقدامات کیے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور اس کے بعد دنیا کے دیگر مالیاتی ادارے بھی آگے بڑھے اور ہماری مدد کی جس کے ذریعے ہم نے زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم کیے، ماضی کے حکومتوں کا لیا گیا 5 ہزار ارب روپے کا قرض واپس کیا۔

انہوں نے ماضی میں دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالے سے ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی چنانچہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھانا ہے جس کے نتیجے میں 20 ارب ڈالر کا بیرونی خسارہ کم کر کے 3 ارب ڈالر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بحران کی ایک وجہ یہ تھی حکومت انتخابات کے دوران حد سے زیادہ خرچے کرتی تھی تو ہم نے بہت سختی سے حکومتی اخراجات کو کم کیا، کابینہ کی تنخواہیں کم کی گئیں، صدر و وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کیے حتیٰ کہ فورس کے اخراجات کو بھی منجمد اور سول حکومت کے اخراجات کو کم کیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بالائی سطح سے اخراجات کم کیے گئے اور گذشتہ مالی سال میں سٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا گیا، حکومت کے کسی ادارے، وزارت یا محکمے کو کوئی ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی، طاقتور لوگوں کو ’نو‘ کہا تاکہ ملک کی میکرو اکانومی ہے اسے مستحکم کیا جائے۔ ساتھ ہی ہم نے ٹیکسز کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور عالمی وبا کرونا وائرس سے پہلے ٹیکسز کے بڑھنے کی رفتار 17 فیصد تھیی بدقسمتی سے کرونا وائرس آیا اور جس اچھے انداز میں ہمارا ریونیو بڑھ رہا تھا وہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے پہلے ہمیں 2 چیلنجز تھے ایک پاکستان کے عام لوگوں کی زندگی ایک حد سے زیادہ متاثر نہ ہو جس کے لیے ہم نے 12 کھرب 40 ارب روپے کا پیکج دیا۔ اس پیکج کے متعدد عناصر تھے لیکن سب سے بڑا حصہ غریب، یومیہ اجرت اور کمزور طبقے کے افراد کو نقد رقم فراہم کرنا ہے اور شاید دنیا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا پروگرام تھا اور گزشتہ 2 سال کے عرصے میں پورے ملک کے ہر حصے میں غریب لوگوں کو ڈھائی سو ارب روپے دیے گئے جس میں کسی سیاسی پس منظر کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔

دوسری جانب بزنس سیکٹر کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کی گئی تا کہ انہیں لیکویڈیٹی کے بہت زیادہ مسائل کا سامنا نہ ہو کیوں کہ ہم چاہتے تھے کہ جب دنیا کی معیشت بحال ہو تو ہمارے بزنس اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں جس کے متعدد طریقوں سے مدد کی گئی انہیں سستے قرضے دیے گئے تاکہ وہ مزدوروں کو ادائیگی کردیں تاکہ انہیں بے روزگاری کا سامنا نہ ہو۔

اس کے ساتھ کاروباری اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کو ایک سال کے لیے مؤخر کردیا گیا، چھوٹے کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل خود ادا کیے تاکہ وہ پھل پھول سکیں اور زرعی شعبے میں خریداری کے لیے مختص کردہ 280 ارب روپے استعمال کیے تاکہ عام لوگوں کے ہاتھ میں پیسے آئیں اور وہ معاشی سرگرمیاں کرسکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ دنیا کے غیر جانبدار لوگ ان اقدامات کی تعریف کررہے ہیں، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم کی، آئی ایم ایف کے بورڈ نے اسے سراہا دنیا کے سرمایہ کاروں نے غیر ملکی سرمایہ کاری میں 188 فیصد اضافہ کیا، اسٹاک مارکیٹ میں 4 فیصد اضافہ ہوا اور بلوم برگ نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہتری اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا۔

انہوں نے کہا ہم نے بجٹ میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہزاروں خام اشیا پر درآمدی ٹیکس صفر کردیا اور کہا کہ ملک کی معیشت کو عالمی معیشت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ مالی سال کے پہلے ماہ میں برآمد میں 6 فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ کی فروخت میں 33 فیصد، برآمدت میں 66 فیصد اضافہ ہوا، پیٹرول کی فروخت میں 8 فیصد، ڈیزل 15 فیصد، کھاد 22 فیصد، موٹر سائیکلوں کی فروخت 31، ٹریکٹرز 17 فیصد، گاڑیوں کی فروخت 4 فیصد بڑھی۔

اس کے ساتھ جون میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئے جو 2.8 ارب ڈالر تھے، ایف بی آر کی کلیکشن 300 ارب روپے رہی جو ان کے خود کے تخمینے سے 23 گنا زیادہ تھی اور کرونا وائرس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں 40 فیصد ہوا۔

مشیر خزانہ نے کہا ان سب اشاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں، عمران خان کی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح پاکستان کے عوام ہیں اور ہم نے جتنا پیسہ خرچ کیا پاکستان کے عوام پر کیا۔ تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو 2 کھرب 50 ارب روپے دیے گئے، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو ایک کھرب 92 ارب روپے دیے گئے، یوٹیلیٹی اسٹور پر 5 بنیادی اشیائے خورونوش کو سستے داموں میں فراہم کرنے کے لیے 50 ارب روپے دیے، رمضان کے دوران 19 چیزوں کی قیمت کم رکھنے کے لیے 15 ارب روپے دیے گئے، 72 فیصد پاکستانیوں کے لیے حکومت اپنی جیب سے بجلی سستی کر کے دے رہی ہے، 90 فیصد پاکستانیوں کو گیس کم قیمت پر فراہم کی جارہی ہے اسی طرح 100 فیصد ٹیوب ویلز کو سستی بجلی دی جارہی ہے اور جب دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی تو عوام تک اس کا فائدہ پہنچایا گیا اس کے علاوہ کھاد کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے کم قیمت گیس دی جارہی ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا ہم سب اگر مل جائیں تو پاکستانی عوام کی امنگیں پوری ہوں گی، یہ ملک ایسے ہی نہیں بنا اس کے لیے بہت سے لوگوں سے قربانیاں دی ہیں، اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ایک لیڈر کے ساتھ مل کر وہ اقدامات کریں جس کے عوام منتظر ہیں۔

وزارت امور اقتصادیات حماد اظہر نے نیوز بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کووِڈ 19 کے دوران دنیا بھر کے کاروبار مشکلات کا شکار تھے لیکن پاکستان نے ایک علیحدہ راستہ اپنایا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کووِڈ کے دوران سپلائی کے سلسلے اور سپلائی کے راستوں کو مکمل طور پر بحال رکھا کسی بھی چیز کی قلت نہیں ہونے دی اس کی وجہ یہ تھی کہ بروقت تعمیراتی شعبے، منڈیوں اور طبی اشیا کی فراہمی کے سلسلے کو کھولا جس سے کووِڈ کے عروج کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ اسی دوران کاروبار کے لیے ریلیف دیا گیا، اسٹیٹ بینک کی پیرول فنانسنگ، 30 سے 35 لاکھ چھوٹے کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے گئے، ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا اور اس میں ٹیکس کی شرح کو بھی کم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2 سال سے ہم صنعتوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کررہے ہیں اور ہزاروں اشیا پر کسٹم ڈیوٹی صفر کی جاچکی ہے، وِڈ ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی اور سیلز ٹیکس کی اسپیشل رجیم کو بھی ختم کر کے اسٹینڈرڈ رجیم پر لے گئے۔ ساتھ ہی تعمیراتی شعبے کے لیے پیکج کا اعلان کیا گیا جس کے اثرت اب نمایاں ہیں اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک دیگر شعبوں میں سرگرمیاں عروج پر ہیں اور مون سون سیزن ختم ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ میں 2 نئی پالیسیز متعارف کروائی گئیں اس میں الیکٹرک وہیکل پالیسی اور موبائل مینوفیکچرنگ پالیسی کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس سال 2 سے 3 پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی پیدوار پر غور کیا جارہا ہے جبکہ موبائل مینوفیچکرنگ پالیسی کا اطلاق ہوچکا، مینوفیکچرنگ کی جارہی ہے اور ہماری ایکسپورٹ کا آغاز ہونے والا ہے۔