مینار پاکستان میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی دلخراش اور افسوسناک ہے، یہ واقعہ صرف 400 افراد کی اصلیت دنیا کے سامنے نہیں لایا بلکہ یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ متاثرہ خاتون ٹک ٹاکر ہے یا یوٹیوبر، پردے میں تھی یا نہیں، مشرقی لباس میں تھی یا مغربی لباس میں، یہ سب باتیں کرنے کا مطلب صاف ہے کہ آپ ان 400 جنسی درندوں کے مجرمانہ رویے کی مذمت کرنے کے بجائے انہیں بڑھاوا دے رہے ہیں۔
کچھ لوگ متاثرہ خاتون کی پرانی ٹک ٹاک ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کر کے اس خاتون کو بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ لوگ کوئی نا کوئی جواز بنا کر اس خاتون کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ خاتون مینار پاکستان گئی کیوں وغیرہ وغیرہ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کے کردار کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ دوسری بات، اگر مان لیا جائے کہ کوئی عورت بدکار ہے تو کیا اس کو روڈ پر برہنہ کیا جائے گا؟ یا ٹولہ بنا کر اس کو ہراساں کیا جائے گا؟ دوسروں کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے اور اپنے اندر کی غلاظت کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی لباس سے متعلق ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جس سے ایک خاص طبقے میں پائی جانے والی سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ اگر کوئی خاتون جینز پہنے یا مغربی لباس پہنے تو اس کا کریکٹر ڈھیلا ہے۔ دراصل ہم مردوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ ہم کسی خاتون کو مغربی لباس میں دیکھ لیں تو اس خاتون کو جانے پہچانے بغیر یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ یہ خاتون دو نمبر ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے مگر زیادہ تر مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جو لباس دیکھ کر خاتون کے کردار کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سی خواتین بھی مینار پاکستان واقعے میں ملوث وحشی درندوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس خاتون کو ہی برا بھلا کہہ رہی ہیں اور اس قسم کے واقعات میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ متاثرہ خاتون کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے پھر چاہے اس کا ریپ ہی کیوں نہ ہوا ہو۔
اللہ کسی کو بیٹی نہ دے، یہ الفاظ ادا کرنے سے پہلے تک میں معروف اینکر پرسن اقرار الحسن کو سمجھدار سمجھتا تھا، یہاں بھی قصور عورت کا ہے، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے بیٹوں کی تربیت نہیں کرنی، بیٹوں کو راہ راست پر نہیں لانا۔ اقرار صاحب آپ بیٹی کی بات کرتے ہو یہاں تو گائے، بھینس، بلی اور بکریاں تک محفوظ نہیں۔ اگر، مگر کے بجائے ہمیں اپنے اندر کی غلاظت کو صاف کرنا ہوگا، اپنے اردگرد لوگوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کرنا ہوگی اور اس برائی کے خاتمے کے لئے معاشرے کے ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ یہ برائی دنیا و آخرت میں ہماری تباہی کا سبب بنے گی۔