کامران خان نے اچانک چین سے پاکستان دوستی کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے تو انہوں نے پوری ویڈیو بنائی، سوشل میڈیا پر ڈالی اور چین کو خوب رگڑا کہ یہ کس قسم کا ہمالیہ سے اونچا اور سمندر سے گہرا دوست ہے جو پاکستان کے مشکل ترین حالات میں پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو FATF کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، ہمیں IMF سے قرضہ نہیں مل رہا کیونکہ ہمارے سامنے جو شرائط رکھی جا رہی ہیں، وہ اس حد تک شرمناک ہیں کہ انہیں قبول کرنا ہمارے جیسی معیشت کے لئے بھی مشکل ہو رہا ہے۔ پھر ہمیں مجبوراً سعودی عرب کے پاس جانا پڑا اور انہوں نے ہمیں صرف رقم اپنے بینک میں رکھنے کے لئے دی مگر اس کے لئے بھی شرائط ایسی عائد کر دی ہیں کہ محض معاہدے کے سامنے آنے والے مندرجات دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان نے چین کے کہنے پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے بلائی گئی جمہوریت کی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا لیکن دوسری جانب چین ہے جو ہمیں اتنی شدید مشکلات میں دیکھ کر بھی نہ تو ہمیں کوئی مالی امداد دینے کو تیار ہے، نہ ہی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے کیے گئے معاہدوں میں کوئی رد و بدل کرنے کے لئے آمادہ ہے، اور سب سے اہم یہ کہ جو بجلی گھر ہم نے بنائے ہیں، ان کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے اور جب چین سے کہا جائے کہ ہم اس پر لیے قرض کی قسطیں نہیں دینا چاہتے تو چین اس پر بھی راضی نہیں۔ کامران خان نے یاد دلایا کہ پاکستان کی معیشت پوری طرح سے مغرب پر منحصر ہے۔ FATF سے نکلنا ہے تو اس کے لئے بھی امریکی اور یورپی آشیرباد چاہیے ہوگی اور IMF سے قسط لینی ہے یا دنیا کے دیگر بڑے مالیاتی اداروں سے قرض لینا ہے تو وہ بھی امریکہ کی آنکھ کے ایک اشارے سے ممکن ہو سکتا ہے لیکن بجائے ان طاقتور ممالک کے ساتھ نظر آنے کے، پاکستان نے اپنی قسمت کی ڈور چین کے ہاتھ میں دے دی ہے جو کہ ہماری بنیادی ضروریات کے حوالے سے بھی ہاتھ پکڑانے کو تیار نہیں۔ سینیئر صحافی نے وزیر اعظم عمران خان کے امریکی کانفرنس میں نہ جانے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے واشگاف الفاظ میں غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہماری برآمدات ہماری درآمدات سے زیادہ ہیں لیکن ہم ایسے دوست کا ساتھ چھوڑ کر چین کا ہاتھ تھامے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان کا چین کے ساتھ تجاری توازن کبھی پاکستان کے حق میں نہیں ہو سکتا۔
بات لیکن صرف ویڈیو پر نہیں رکی۔ اگلے روز انہوں نے دنیا نیوز پر اپنے شو میں اچھا خاصہ لمبا پروگرام کیا جس میں انہوں نے خارجہ، دفاعی اور معاشی امور کے ماہرین کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے بھی بات کی۔ اپوزیشن رہنما مفتاح اسماعیل سے بھی بات کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے چین کے حق میں بھی دلائل دیے۔ مثلاً شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا کہ پاکستان FATF کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں محض اس لئے نہیں گیا کہ چین نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے کامران خان کو کورونا وائرس کے معاملے میں دی گئی چینی مدد کے بارے میں بھی یاد دہانی کروائی۔ ایک اور نکتہ جو شاہ محمود قریشی اٹھانا بھول گئے، شاید ان کے پاس بھولنے کی وجہ بھی تھی، مگر اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ گذشتہ برس جب شاہ محمود قریشی نے ARY نیوز پر کاشف عباسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں سعودی حکومت کو ٹھیک ٹھاک لتاڑ ڈالا تھا اور دھمکی دی تھی کہ چونکہ سعودی عرب نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ مدد پاکستان کو نہیں ملی تو پھر پاکستان کو لامحالہ اس طرف دیکھنا ہوگا جہاں سے اس کے سفارتی مؤقف کے لئے اسے تائید ملتی ہے۔ ان کا اشارہ یقیناً ایران، ترکی اور ملائشیا پر مشتمل امتِ مسلمہ کے دوسرے بڑے بلاک کی طرف تھا۔
اس انٹرویو کا شدید ردِ عمل آیا تھا جب سعودی حکومت نے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں رکھے اپنے 3 ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کا فوری مطالبہ کر دیا تھا اور چند ہفتوں بعد ایک ارب ڈالر اور مانگ لیا تھا۔ اس موقع پر چین ہی نے پاکستان کی مدد کرتے ہوئے یہ رقوم پاکستان کو فراہم کی تھیں جس سے ہم سعودی عرب کے ساتھ معاملہ نمٹانے میں کامیاب ہو گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ معاملہ نہ کامران خان کو یاد تھا اور نہ ہی شاہ محمود قریشی نے اسے اٹھانے کی زحمت کی۔
اب یہ بھی یاد رکھیے کہ کامران خان کے علاوہ شبر زیدی بھی واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے، یہ چل نہیں رہا اور اگر اس کو ٹھیک کرنا ہے تو اولین طور پر تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم مان لیں کہ یہ مسئلہ ہے تاکہ اسے ٹھیک کرنے کی طرف بڑھ سکیں۔ اور اگر ایک بار یہ بات مان لی جائے تو پھر ٹھیک کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ ہم جو بھی کچھ پیدا کر رہے ہیں، اس کی منڈی مغرب ہی ہے، ایشیا میں ان چیزوں کی کوئی منڈی نہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اچانک ان دونوں کو کیا ہوا؟ تو جناب غور سے سنیے شبر زیدی کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے اس کی وضاحت بھی جاری کی تو اپنے الفاظ واپس نہیں لیے بلکہ یہ کہا کہ 30 منٹ کی تقریر میں سے یہی 3 منٹ کی تقریر پر میڈیا نے کچھ زیادہ ہی بات کر لی وگرنہ میں نے تو وہاں ان مسائل کے حل بھی بتائے تھے۔ گویا مسئلے کی موجودگی یا اس کی شدت کے حوالے سے وہ ابھی بھی اپنے کہے پر قائم ہیں۔
یوں بھی ان کا قائم ہونا یا نہ ہونا غیر اہم ہے۔ ان کی گواہی محض اس لئے معتبر ہے کہ ماضی میں وہ اسی حکومت کے FBR کے سربراہ رہ چکے ہیں، ورنہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یہ کسی بھی شعور رکھنے والے شخص کو پہلے ہی معلوم ہے۔ پاکستان کی معیشت کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ اس وقت قرضے واپس کرنے میں لگا رہے ہیں، گردشی قرضے ہوں، غیر ملکی قرضے ہوں یا پھر تجارتی خسارہ، سب کچھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملکی معیشت اس جگہ پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ یہاں سے اس کے اٹھنے کے امکانات اب بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق کم از کم عمران خان کے دورِ حکمرانی میں تو معدوم ہی سمجھے جانے چاہئیں۔ کامران خان جن لوگوں کی طرف سے یہ بات عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں بھی اسی قسم کی صورتحال کو سامنا کرنا پڑے گا اور شاید سب سے بڑا دھچکا انہیں ہی برداشت کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس وقت گھبرائی ہوئی ہے، اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اسٹیبشلمنٹ گھبرائی ہوئی ہے جس کی گھبراہٹ کامران خان کے لہجے میں جھلک رہی ہے۔ ملکی معیشت کے دیوالیہ پن کی حالت میں شاید اسے وہی کرنا ہوگا جو یہ تمام صحافی اسے سمجھا رہے ہیں۔
1) اقتدار کی عوام کے حقیقی نمائندوں تک منتقلی
2) نئے انتخابات جن پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد ہو
3) ایک تجربہ کار حکومت کا قیام جو کہ حقیقتاً سیاسی ہو اور عوام کی نبض پر اس کا ہاتھ ہو۔
پاکستان اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اور ایسے میں دانشمندانہ فیصلے نہ لینا، ماضی کی طرح ضد پر اڑے رہنا، صرف افراد کا نہیں پوری قوم کا معاشی قتل کے مترادف ہوگا۔