میڈیا اکثر اپنے صنفی امتیاز پر مبنی مواد سے عورت بیزاری کا سبق دیتا ہے

میڈیا اکثر اپنے صنفی امتیاز پر مبنی مواد سے عورت بیزاری کا سبق دیتا ہے
پاکستان میں صنفی امتیاز ہمارے دماغوں میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب ہم اپنی عورت بیزاری کا ثبوت دے جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں بیانات ہوں یا ٹی وی پر خواتین کرکٹ کی کوریج، یہ صنفی امتیاز ہر طرف واضح ہے۔

* میڈیا اکثر اپنے صنفی امتیاز پر مبنی مواد سے عورت بیزاری کا سبق دیتا ہے

* اکثر کامیڈی جو ٹی وی بر دکھائی جاتی ہے، صنفی امتیاز پر مبنی ہوتی ہے

* پاکستان میں صنفی امتیاز ہر طرف موجود ہے

* کیونکہ اس موضوع پر بات ہی نہیں کی جاتی

* مثال کے طور پر خواتین کی کرکٹ ٹیم کو ویسی پذیرائی نہیں ملتی

* جیسی مرد کرکٹ ٹیم کو ملتی ہے

* اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی کرکٹ کو

* سنجیدہ معاملہ سمجھا ہی نہیں جاتا

* پاکستان کرکٹ کے ایک سٹار شاہد آفریدی نے ایک بار کہا تھا ’خواتین بہترین کھانا پکاتی ہیں‘

* ان سے سوال یہ کیا گیا تھا کہ خواتین کی کرکٹ کے بارے میں ان کا خیال کیا ہے

* اور یہ عورت بیزاری کھیلوں تک ہی محدود نہیں

* خواتین سیاستدانوں کے کام کو بھی پذیرائی نہیں ملتی

* سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بار شیریں مزاری کو

* ان کی جسامت پر نازیبا جملہ کستے ہوئے ٹریکٹر ٹرالی کہا تھا

* تحریک انصاف کے ایم این اے عامر لیاقت نے

* شیری رحمان کی ایک مرد سیاستدان کے ساتھ تصویر ٹوئیٹ کی

* جس میں ایک بھارتی فلمی گیت کے انتہائی ذو معنی الفاظ کیپشن میں لکھے گئے تھے

* ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ عورت بیزاری کا یہ رویہ سماج میں کس قدر گہری جڑیں رکھتا ہے

https://www.youtube.com/watch?v=j2ZSqeDP-eY&feature=youtu.be