آج ہمارے درمیان ہوتے تو استاد مہدی حسن خاں 13 برس کے ہو چکے ہوتے کہ 18 جولائی ہی کے دن سنہ 1927 میں متحدہ ہندوستان کی راجپوتانا ایجنسی کے شہر لونا میں اس 'شہنشاہ غزل' نے جنم لیا تھا۔ ایک ضعیف روایت کے مطابق مہدی حسن نے اپنے طویل کریئر کے دوران کوئی چھپن ہزار گانے ریکارڈ کروائے اور پاکستان کی فلم انڈسٹری پر دہائیوں راج کیا۔ ان کے فلمی گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ 'پیار بھرے دو شرمیلے نین' ہوں یا 'ترے بھیگے بدن کی خوشبو'، آج بھی مہدی حسن کے گانے دلوں کو گرما دیا کرتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ ان دھنوں کی مقبولیت پر آج بھی 'ٹھہرا ہے سماں' تو غلط نہ ہوگا۔
لیکن آج ان کے فلمی گیتوں کو جہاں یاد کرنے کا دن ہے وہیں گوگل نے ایک 'ڈوڈل' کی صورت جو ان کی تصویر گوگل پاکستان کے صفحہ اول پر لگائی ہے، اس میں انہیں ان کے ٹریڈ مارک سٹائل میں ہارمونیم کے آگے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ اب ایسے میں فلمی گیتوں کی بے حرمتی تو نہ ہوگی اگر ہم مہدی حسن ہی کی غزلوں کو سن کر اپنے کچھ وقت کو حسین بنانے کی کوشش کریں۔
تو آئیے آج اس شخص کی چند غزلیں سنتے ہیں جس کے لئے بھارت کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر نے 1977 میں برطانیہ میں سجی ایک محفل کے دوران یہ لازوال الفاظ کہے تھے کہ 'لگتا ہے مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے'۔
شروعات پاکستان کی دنیا بھر میں پہچان بننے والے ایک اور عظیم فنکار سے کرتے ہوئے فیض احمد فیض کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے' ہی سے کرتے ہیں، اور پھر چل سو چل۔۔۔
https://www.youtube.com/watch?v=lMZ9NEF2lFY
استاد پر خود فلمایا ہوا گیت، 'بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی'
https://www.youtube.com/watch?v=lQmfg4ua3qk
اگلی غزل ان کا ایک اور شاہکار 'یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے'۔ میر تقی میر کی اس غزل کے حوالے سے ایک اور دلچسپ واقعہ کچھ یوں ہے کہ بہت سال قبل ایک ویڈیو کیسٹ پر ایک پروگرام دیکھا تھا جس میں مہدی حسن صاحب بطور جج جلوہ افروز تھے اور ایک نوجوان ان کے سامنے یہی غزل سنا رہا تھا۔ نوجوان نے غزل گاتے ہوئے شائقین سے داد وصول کرنے کی نیت سے راگ کو کچھ زیادہ ہی طول دے ڈالا۔ دھوئیں کو اتنا گھمایا پھرایا کہ ہال سننے والوں کی تالیوں سے گونج اٹھا۔ تالیوں کا شور تھما تو جج صاحب کی باری آئی۔ خاں صاحب نے نوجوان کی پھر وہ اصلاح کی کہ سارا نشہ کافور ہو گیا۔ آپ نے بتایا کہ جس راگ میں آپ نے گانا گایا ہے، یہ دراصل بند کمرے میں گایا جاتا ہے۔ اب بند کمرے میں دھواں اٹھے گا تو اتنا لہلہائے گا نہیں بلکہ تھوڑا سا کسمسانے کے بعد سیدھا اوپر کی طرف اٹھتا چلا جائے گا، لہٰذا اسے اتنا گھمانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کہاں ملتے ہیں اب ایسے اساتذہ؟
https://www.youtube.com/watch?v=QSDtPJV0G3w
اور اب احمد فراز کی دو غزلیں جو اردو ادب اور پاکستانی موسیقی دونوں کا اٹوٹ انگ ہیں۔ پہلے علی بھائی۔۔۔ 'اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں'
https://www.youtube.com/watch?v=fgOp_zNfS0U
اور پھر فلموں میں گلوکار بننے کی نیت سے آ کر بطور ہیرو چھا جانے والے ندیم صاحب۔۔ 'تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا، دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں'
https://www.youtube.com/watch?v=SQbGw37IaYE
علی-زیب کی جوڑی شاید پاکستان کی خوبصورت ترین جوڑیوں میں سے ایک ہے اور آج بھی ان دونوں کی آن سکرین کیمسٹری دیکھنے والوں کو ان دو پیار کرنے والوں سے پیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=FnZrf-AFqys
یہ غزل یوں تو جگجیت سنگھ نے بھی بعد میں گائی اور بری نہیں گائی مگر استاد مہدی حسن کی آواز میں اس کا جادو کچھ ایسا چلتا ہے کہ ہوش کھو سے جاتے ہیں۔ 'میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے'
https://www.youtube.com/watch?v=JPzoVbLe2b0
یہ ممکن ہی نہیں کہ بات پاکستان کی فلم انڈسٹری کی ہو اور وحید کے بغیر مکمل ہو جائے، تو لیجئے اگلی غزل انہی پر فلمائی گئی ہے۔ 'مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو'
https://www.youtube.com/watch?v=UndzYkt8m1w
'آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا'
https://www.youtube.com/watch?v=BykbM8E1p98&t=19s
اور آخر میں 'رفتہ رفتہ'۔۔ یوں تو یہ فلمی گیت کے طور پر بھی فلم 'زینت' میں شاہد اور شبنم پر بہت خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے، مگر فلمی گیت کو سنتے ہوئے یوں کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے کہ اس میں مہدی حسن 'دن بدن بڑھتی گئیں' مکرر نہیں کہتے۔۔
https://www.youtube.com/watch?v=jtzioa3ddKE