لتا دیدی سے لتا دیوی تک کا سفر

لتا دیدی سے لتا دیوی تک کا سفر
لتا منگیشکر چلی گئیں۔ وہ 1929 میں اندور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی زندگی اتنی تلخ گزری کہ ایک بار ان سے انٹرویو کے اختتام پر انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ " لتا جی، ایک کامیاب زندگی، شہرت کی بلندی، بے انتہا فالوئنگ دولت اور نہ جانے کیا کیا، اگلے جنم میں کیا بننا چاہیں گی"۔

"کچھ بھی بن جاؤں لتا منگیشکر نہیں بننا چاہوں گی"، لتا جی نے اپنی معصوم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔ اس جواب کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ تھی، انہوں نے زندگی میں بہت کچھ قربان کیا، لیکن اس کا شکوہ کسی سے نہ کیا، یہاں تک کہ اپنے والد کےساتھ اپنے خاندان کو سنبھالنے کا وعدہ پورا کیا، شادی تک نہیں کی۔

سر تا پا عاجزی میں لپٹی لتا نے کبھی اپنے بڑے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن ہندی اور اردو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ نہ پہلے اور نہ بعد میں ان جیسی کوئی گلوکارہ پیدا ہوئی اور نہ ہوگی۔

لتا منگیشکر کے انتقال کی خبر 6 فروری کی صبح کو پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ان کی آخری رسومات بھارت کے شہر ممبئی میں قومی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بھارت کے ممتاز شہریوں نے شرکت کی۔ سوا ارب آبادی کا وزیر اعظم نریندر مودی لتاجی کے جسد کے سامنے جھک کر خراج پیش کر رہا تھا، موسیقی اور محبت جیت چکی اور نفرت ہار گئی تھی۔

بقول جاوید اختر کے، ہندوستان اردو، تاج محل اور غالب کا نام ہے، لیکن میں اس میں لتا کو بھی شامل کروں گا، کیونکہ مودی کے ہندوستان میں لتا وہ واحد آواز تھی، جس کے سروں میں محبت کا دریا بہتا تھا، جسے ہر کوئی اپنا حصہ سمجھتا تھا، وہ موسیقی کی آئنسٹائن تھی۔

ہر آئنسائن کے پیچھے ایک ماں ہوتی ہے، جب آئنسٹائن کو اس کے سکول ٹیچر نے ایک چٹھی ہاتھ میں تھما کر گھر بھیج دیا تھا، اسی طرح لتا بھی ایک ہی دن سکول گئیں، پھر کبھی سکول کا منہ تک نہ دیکھا۔ آئنسٹائن کے استاد کی چٹھی جب اس کی ماں نے پڑھی تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ استاد نے چٹھی میں لکھا ہے کہ "وہ اس قابل نہیں کہ آپ کے بیٹے کو پڑھائے" لیکن لتا جب اپنی چھوٹی بہن آشا بھوسلے کو گود میں اٹھا کر پہلے دن سکول گئیں، تو اسے استاد نے کہا کہ بچوں کو سکول مت لایا کرو۔

"یا تو بچی گھر چھوڑ آؤ، یا خود چلی جاؤ، بس وہ ہی دن تھا، اس کےبعد دیدی کبھی سکول نہیں گئیں"، لتا جی کی بہن اوشا منگیشکر ایک بھارتی ٹی وی کو بتارہیں تھیں۔

"اس دن لتا دیدی بڑے غصے میں تھیں، گھر آ کر ماں کو کہا کہ انہوں نے میری بے عزتی کی ہے، میں اب سکول نہیں جاؤں گی"

فرق صرف یہ تھا کہ آئنسٹائن کو ایک بہانے سے سکول سے نکالا گیا اور لتا جی خود سکول کو ٹھوکر مار کر گھر آ گئیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ بڑے بڑے اساتذہ ان کے سامنے جھکتے تھے، سبب ایک ہی تھا کہ انہوں نے اپنے کام کے ساتھ عشق کیا۔ پرفیکشنسٹ ہونے کی وجہ سے لتا پر ایک جنون سوار تھا۔ یہی سبب تھا کہ دلیپ کمار کے ایک طعنے نے ان کی گائیکی کے سفر کا رخ ہی تبدیل کر دیا۔ آئنسٹائن نے اپنے استاد کا جو خط اپنی ماں کو دیا تھا وہ اسے تب ملا جب اس کی ماں اس دنیا سے جا چکی تھیں، خط میں اس کے استاد نے لکھا تھا کہ تمہارے بیٹے کو ہم نہیں پڑھا سکتے ، لہذا اب اسے سکول مت بھیجنا، لیکن اس ماں نے اپنے بیٹے کو جو دلاسہ دیا اس نے اس کی دنیا ہی تبدیل کر دی۔ ماں نے کہا تھا کہ تہمارے ٹیچر نے لکھا ہے کہ تمہارا بیٹا اتنا ذہین ہے کہ ہم اس قابل نہیں کہ اس کو پڑھا سکیں۔ لتاجی کی ماں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ 22 سال کی عمر میں لتا کی بلندیوں کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ وہ ایک دن میں 6 سے آٹھ گانے ریکارڈ کراتی تھیں، جب تھک کر سو جاتیں تو انہیں ایک ہی خواب روز نظر آتا تھا، اور وہ خوف کے مارے نیند سے اٹھ جاتیں۔ ایک دن لتا جی نے ماں کو بتایا کہ وہ روزانہ ایک ہی خواب دیکھتی ہیں، کہ صبح کا وقت ہے، وہ سمندر کنارے چلے جا رہی ہیں، کنارے پر کالے پتھر کا ایک مندر ہے، وہ اس مندر کے اندر جاتی ہیں تو پیچھے ایک اور دروازہ ہے جسے کھول کر وہ آگے جاتی ہیں تو رنگ برنگا پانی اس کے پاؤں کو چھوتا ہے، اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔ لتا جی کی ماں خوابوں کی تعبیر جانتی تھیں کہ نہیں، لیکن انہوں نے لتا کو کہا کہ تم سمندر جتنی شہرت پاؤ گی، پھر ایسا ہی ہوا۔

لیکن اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر نے اس خواب سے پہلے ہی اپنی بڑی بیٹی لتا کو بتا دیا تھا کہ وہ شہرت کی اس بلندی تک پہنچے گی کہ دنیا حیران رہ جائے گی، لیکن میں اسے نہیں دیکھ سکوں گا۔ کچھ عرصے بعد دینا ناتھ دنیا چھوڑ گئے۔

لتا جی کے امتحان کا وقت شروع ہوا۔ باپ نے اپنی زندگی میں اپنی بڑی بیٹی کو کہا تھا کہ اس کی بہنیں، بھائی اور ماں کا اسے خیال رکھنا ہے، اپنے انتقال سے پہلے دینا ناتھ جو ایکٹر موسیقار اور گلوکار تھے، معاشی طور پر کافی پریشان تھے، وہ پونا منتقل ہوئے، ان کی ایک تھیٹر کمپنی تھی، ایک بار جب سٹیج پر پروگرام ہو رہا تھا تو ایک گلوکار پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں پہنچا۔ دینا ناتھ پریشان تھے، لوگ ہال کے اندر موجود تھے، اور فنکار غائب تھا۔ اس وقت آٹھ سال کی لتا نے اپنے والد سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ گانا چاہتی ہوں۔ اگر وہ فنکار نہیں تو کیا ہوا، میں یہ کمی پوری کر لوں گی۔ اس دن دینا ناتھ نے اپنی بیٹی کی بات مان لی اور لوگوں کو اس بچی کے گیت اچھے لگے۔ 11 سال کی عمر میں اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے مختلف سٹیجز پر جا کر لتا کو گانا پڑا، وہاں سے جو رقم ملتی اس سے گھر کا خرچہ چلتا۔

باپ کے انتقال کے بعد 1945 میں لتا جی اپنے عیال کے ساتھ مبئی منتقل ہو گئیں۔ اور کام ڈھونڈنے لگیں۔ انہیں ہر جگہ یہ کہہ کر رد کیا جاتا رہا، کہ اس کی آواز بہت باریک ہے۔ اس دوران لتا کو کچھ فلموں میں کردار ملے، لیکن وہ اس پر خوش نہیں تھیں۔ شوٹنگ سے گھر واپس آتیں تو روتیں کہ وہ کہاں پھنس گئی ہیں۔ موسیقار ماسٹر غلام علی انہیں ایک دن ایک پروڈیوسر کے پاس لے گئے، جو شہید فلم بنا رہے تھے، جس میں دلیپ کمار ہیرو تھے۔ اس پروڈیوسر نے ماسٹر غلام علی کو کورا جواب دے دیا کہ وہ اس لڑکی سے گانا نہیں گوائے گا۔ 1948 میں لتاجی کو ماسٹر غلام علی کی کوششوں سے فلم مجبور میں گانا ملا، جس نے لوگوں کو لتا کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا۔ ان دنوں لتا ممبئی میں جہاں رہتی تھیں، وہاں سے سٹوڈیو کا ریل کے ذریعے ایک گھنٹے کا سفر تھا۔ ایک بار ریل میں دلیپ کمار سے کسی نے لتا کا تعارف کرایا، اور بتایا کہ یہ مراٹھی میں گاتی ہیں۔ دلیپ کمار کے ایک طعنے نے لتا جی کے پورے کریئر کا رخ ہی بدل دیا۔ دلیپ کمار نے تعارف کے بعد کہا کہ مراٹھی گانے والوں کو تو اردو کا درست تلفظ بھی ادا کرنا نہیں آتا۔ اس وقت دلیپ کمار کے روئے میں تھوڑی سی حقارت بھی تھی۔ لتا نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ غصے میں آ گئیں، لیکن اس کا اظہار اس وقت نہ کیا اور وہ اردو کے ایک استاد کے پاس گئیں، جہاں سے اردو کی مکمل تعلیم حاصل کی۔ لتا ہندوستان کی واحد گلوکارہ ہیں جن کے گانے میں خ اور کھ، گ اور غ کا واضح فرق موجود ہوتا ہے، جو باقی بھارتی فنکاروں میں نہیں۔ دلیپ کے ساتھ پہلی ملاقات اور ان کے طعنے کے بعد لتا اور دلیپ کمار میں بہن بھائی کا رشتہ بن گیا۔ وہ ہمیشہ دلیپ کمار کو راکھی باندھا کرتی تھیں۔

لتا کا کمال یہ تھا کہ اس نے ہر گیت کے ہر لفظ میں وہ احساس بھر دیا جو اس کا حق تھا۔ اگر ملائم کا لفظ ادا کرنا ہوتا تو سننے والے کو اتنی ہی نرمی محسوس ہوتی، اور تھکن کے لفظ میں وہ ہی تھکاوٹ کا احساس موجود ہوتا۔ ایک بار بڑے غلام خان کہیں بیٹھے تھے کہ نیچے ہوٹل پر فلم انارکلی کا گانا "یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا" چلا تو سامنے بیٹھے مہمان کو بڑے غلام علی خان نے خاموش رہنے کا کہا اور بڑے دھیان سے گانا سننے لگے۔ گانا ختم ہوا تو بے ساختہ کہا "کم بخت کبھی بے سری ہوتی ہی نہیں"۔ لیکن خوش بختی کا سفر جو شروع ہوا وہ لتا کے ساتھ آخری سانس تک جاری رہا۔ لتا کی تعریف یہ ہے کہ وہ لتا منگیشکر ہے، بس! یہی سبب تھا کی ہندوستان کی پوری سیاسی قیات ان کی آخری رسومات میں ان کے جسد کو جھک کر خراج پیش کر رہی تھی۔

ایک وقت آیا جب لتا نے گیت کاروں اور گلوکاروں کے لئے رائلٹی کا مطالبہ کیا۔ جب انکار کیا گیا تو انہوں نے گانے سے انکار کر دیا۔ مجبور ہو کر فلم پروڈیوسرز کو ان کی بات ماننا پڑی، اور رائلٹی کا مطالبہ مانا گیا۔

لتا نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایوارڈز لینے سے انکار کر دیا، کہا کہ اگر مجھے ایوارڈ ملنے لگے تو باقی گلوکار کہاں جائیں گے۔

اپنے خاندان کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کا جو انہوں نے اپنے والد کے ساتھ عہد کیا اسے آخر تک نبھایا۔

لتا جب پانچ سال کی تھیں اور اپنے والد کے ساتھ کے ایل سہگل کو سن کر واپس گھر آئیں تو بہت خوش تھیں۔ اپنی ماں سے کہا کہ میں بڑی ہو کر کے ایل سہگل سے شادی کروں گی۔ ماں باپ دونوں ہنسنے لگے۔ دینا ناتھ نے کہا کہ جب تم شادی کرو گی تو سہگل تو بہت بڈھے ہو چکے ہوں گے۔

لیکن جب دن رات کر کے لتا نے پیسے جمع کیے اور ایک ریڈیو سیٹ خریدا تو اس کی یہ خوشی اس وقت ایک صدمے میں تبدیل ہو گئی۔ ریڈیو آن کر کے آکاش وانی لگایا تو اس پر پہلی خبر کے ایل سہگل کے انتقال کی تھی، جس نے لتا کو بہت دکھی کر دیا۔ لتا نے کہا یہ ریڈیو میرے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں انہیں سلو پوائزن دیا جا رہا تھا، جس سے ان کی حالت خراب ہو چکی تھی، لیکن ڈاکٹروں کی کوششوں سے ان کی زندگی بچ گئی، اور نیتجے میں ہزاروں گیت کروڑوں لوگوں تک پہنچے۔

بجا طور پر ہماری نسل اپنی ہزار بدقستمیوں کے باجود اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس نے لتا کو سنا، اسے روبرو یا سکرین پر دیکھا، اس کی باتیں سنیں۔

میرا خیال ہے کہ لتا کو سننا اور اسے محسوس کرنا ایک اعزاز سے کم نہیں۔ بلاشبہ جو لوگ اسے سمجھتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں۔

لتا نے تین نسلوں کو اپنی گلوکاری سے متاثر تو کیا لیکن یہ سلسلہ آنے والی نسلوں تک جاری رہے گا۔ لتا تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو اور ہندی سمجھنے والے موجود ہوں گے۔ وہ ہر دور میں ایک نئے انداز کے ساتھ اس دور کی نسل کو متاثر کرے گی۔

انسان جب اپنے ہنر میں یکتا ہو جائے تو وہ دیوتا بن جاتا ہے۔ قابل تقلید، قابل پوجا بن جاتا ہے۔ اور 6 فروری 2022 کو جب لتا جی کی آخری رسومات ادا ہو رہی تھیں، تو ہم نے لتا دیدی کو ایک دیوی میں تبدیل ہوتے دیکھا۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔