ہر معاشرے کے مسائل کا براہ راست تعلق اس کی سرزمین اور وہاں کی تاریخ سے ہوتا ہے۔ جہاں یورپ اور امریکہ کی تاریخ میں ہم ہر دور میں کہیں نا کہیں ایجادات اور آگے بڑھنے کے معاملات کو دیکھتے رہے وہیں برصغیر پاک و ہند کے مسائل میں نفرت اور تعصب کے ساتھ ساتھ منافقت کا بھی گہرا اثر رہا ہے۔ حال ہی میں برصغیر سے تعلق رکھنے والی عالمی قد کاٹھ کی گلوکارہ لتا منگیشکر کے انتقال کی خبر نے ہندوستان اور پاکستان کو ایک دفعہ ہلا کر رکھ دیا اور شاید کافی دہائیوں بعد ہمیں یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ کسی ایک انسان کے جانے پر دونوں ملکوں کے جذبات یکساں تھے۔ دکھ اور ماتم کی سی کیفیت دونوں جانب برابر تھی۔ دونوں ممالک کی قریباً 90 فیصد آبادی نے لتا جی کو اپنی اپنی سوچ اور معیار کے مطابق اعزاز دیا اور ان سے اپنی محبت کا ناطہ ظاہر کیا۔ ہندوستانی فنکار پاکستانی چینلز اور پاکستانی فنکار ہندوستانی چینلز کی زینت بنے اور ایک دوسرے سے محبت اور لتا دی دی کے بارے میں خیالات کا تبادلہ ہوا۔
میں دو روز بہت خوش بھی تھا کہ ایک انسان نے کافی عرصے بعد ہم دونوں ممالک کو کسی نا کسی مقام پر اکٹھا ضرور کیا ہے اور شاید آنے والا وقت ہمیں اور قریب لائے گا۔ اس کی وجہ چلو لتا جی کی موت ہی بننے والی تھی، جو خدا کو منظور! ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں یہ ٹوئیٹ کرنے پر مجبور ہونے ہی لگا تھا کہ بھارت میں لاکھوں خامیاں ہیں، مودی اور اس کا نظریہ انتہائی گھٹیا ہونے کے باوجود بھارت میں آج بھی یکجہتی اور سیکولر سوچ کہیں نا کہیں موجود ہے، تبھی مودی سے لے کر شاہ رخ تک اور عامر سے لے کر امیتابھ تک سب ایک ہی صف میں برابر سوگوار کھڑے ہیں اور ایک تصویر جس میں شاہ رخ دعا کہ لئے ہاتھ اٹھائے کھڑا ہے، ساتھ اس کی بیوی ہاتھ جوڑے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق لتا جی کو سلام کر رہی ہیں مگر میں ایسا نہ کر سکا کیونکہ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ سوشل میڈیا سمیت عالمی ویب سائٹس پر ایک خبر گردش کرنے لگی اور طوفان بدتمیزی سمیت تعصب بھری ذہنیت ابھر آئی۔
بالی ووڈ میں اپنا مقام بغیر کسی مذہب یا سفارش کے صرف اپنے ہنر پر بنانے والے کنگ خان نے مسلمان ہونے کی حیثیت سے کچھ دعائیہ کلمات پڑھ کر لتا دی دی کی میت پر پھونکا تو ان کی اس ویڈیو اور تصاویر کو مودی سوچ کہیں یا ہندوتوا سوچ کا گند کہیں، انہوں نے گھناؤنا پراپگنڈا شروع کیا کہ "شاہ رخ خان نے لتا جی کی میت پرتھوک دیا ہے"۔ یہ دیکھ کر میرے ذہن میں صرف ایک ہی لفظ آیا "سیکولر انڈیا" مائی فٹ!
بھارت کے تعصب کی جہاں ساری دنیا گواہ ہے وہیں ہمارے پیارے پاکستان میں بھی ایک طبقے نے ایسے معاملات پر اپنی غلاظت اگالنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ بعض افراد نے یہ گلہ کیا کہ پاکستان کے تمام چینلز نے اتنا آن ائیر ٹائم دو دن تک آخر ایک ہندوستانی کو کیوں دیا؟ مجھے اس سوال پر حیرانگی اس وجہ سے ہوئی کہ ہم کتنے بیوقوف یا جاہل لوگ ہیں کہ ایک ایسا انسان جس کے ہنر کی دنیا معترف ہے اور اس کی شناخت برصغیر ہے نا کہ صرف ہندوستان لیکن ہم اس بات پر تلے ہیں کہ نہیں اس کو ہندوستان تک محدود کر کے اس کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔
بعض افراد نے لتا جی کے ساتھ ریسٹ ان پیس لکھنے پر اعتراض اٹھایا اور بعض نے ان کی جنت دوزخ کے معاملات کو سوشل میڈیا پر طے کیا۔ اس حوالے سے اسلام اور شرح تو بڑی واضح ہے اور ہمیں بطور مسلمان اسلام و قرآن پر بھروسہ ہے مگر جنت دوزخ یا ایسے معاملات کا اختیار ہر لحاظ سے مکمل طور پر خدا کا ہے تو اسے خدا کے پاس ہی رہنا چاہیے۔ اگر آپ کسی کے جہنم میں جانے کے قائل ہیں بھی تو آپ اپنی اس سوچ کو خود تک رکھ کر معاشرے پر احسان کر سکتے ہیں اور آپ کو کرنا چاہیے۔ ہم، ہمارے والدین اور ان کے والدین تین نسلیں لتا جی کے گانوں کو سنتی رہیں اور ان کے گانوں کی دھنوں کو چوری کر کے ہمارے ملاؤں نے نعتیں تک کہہ دیں، مگر چور سچے نکلے اور جس کی چوری ہوئی وہ جہنمی، عجیب تقاضا ہے۔
اس حوالے سے ایک سوشل میڈیا صارف نے ایک لائن میں بات کو واضح کیا کہ ہندو دھرم میں بھی جنت (سورگ) اور جہنم (نرگ) کا تصور ہے لہٰذا لتا جی ہندو تھیں تو ہمیں ہندوؤں کی نرگ اور سورگ کا ٹھکیدار نہیں بننا چاہیے۔
قصہ مختصر یہ کہ میرا دل جہاں لتا جی کہ دنیا سے جانے پر آبدیدہ تھا وہیں اس سے بھی کہیں زیادہ ساتھ اس بات پر ہوا کہ ایک اچھا موقع آیا کہ دونوں ملکوں، قوموں اور لوگوں میں اتفاق اتحاد محبت کا فروغ ہو رہا تھا مگر وہ لتا دی دی کے جانے کے 24 گھنٹے بھی برقرار نہ رہ سکا۔
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@