تحریر: (حسان عبداللہ) عمران خان حکومت سے اختلاف کے باوجود اس طرح کی جھوٹی خبریں پھیلانے والے کوٸی خدمت نہیں کر رہےبلکہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ یہ خبر 2014 کی ہے جب عمران خان کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ وزیر اعظم بن جاٸیں گے۔
ہمارے اچھے ہونے کا پیمانہ یہ ہے کہ دوسرا گندا ہو۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل کے بچے 20 . 20 ہزار میں صرف یہ کام کر رہے ہیں کہ مخالف سیاسی جماعتوں کو گالیاں دیں۔ اور ان پوسٹوں کو ان جماعتوں کے حمایتی بلا تحقیق تواتر کیساتھ شٸیر کر دیتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہی نکلاہے کہ اب چور۔ بے غیرت، حرام خور، کرپٹ، جاہل، نشٸی، افیونی، غلام، ڈاکو، دو نمبر، کافر، غدار، جانور، پاگل اور مکار جیسے بے شمار لفظ ہماری روزمرہ لغت میں شامل ہو گٸے ہیں یعنی یہ الفاظ ہمیں گالی نہیں لگتے۔
ٹویٹر استعمال کرنے والے جانتے ہوں کہ آجکل ٹاپ ٹرینڈ گالیوں والے آ رہے ہیں۔ مریم نواز کے منڈی بہاو الدین والے جلسے کے دن جو ٹرینڈ چلا وہ یہاں بتایا بھی نہیں جا سکتا۔
ایسا پروپیگنڈا بھی ہوتا کہ لوگوں کو کافر یا غیر ملکی ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے اور زیادہ افسوسناک بات ہے کہ عام لوگ اس طرح کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ آج ایک ویڈیو دیکھی جس میں حامد میر اپنے آفس میں جشن منا رہے ہیں اور عنوان تھا کہ یہ را ٕ کا ایجنٹ ہے، اور انڈیا کے سیمی فاٸنل میں پہنچنے پرجشن منا رہا ہے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ویڈیو ایشیا کپ کے پاک بھارت میچ کے بعد کی ہے جب پاکستان نے بھارت کو شکست دی۔
ہم سیاسی اختلاف رکھنے پر اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ ہمیں پھر دوسرے کو نیچا دکھانے میں کسی چیز کی پروا نہیں رہتی۔
ہم ایسی منفی سوچ کے حامل ہو چکے ہیں کہ اگر کوٸی نوبل پراٸز بھی لے آٸے تو تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ کہ یہ تو سازش ہے۔اور ہم اس کے جسم میں ابھی تک موجود گولیوں کے باوجود پھڈا ڈال دیتے ہیں اور ردعمل اتنا سخت کہ بندا کاونٹر آرگومنٹ ہی نہ دے سکے۔ ایک دوست کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملامہ ٹیسٹ کیس ہے آپ نام لیں دوسرے کے اندر کا دہشتگرد اچانک سے باہر آ جاٸے گا۔
یہ المیہ ہی ہے نا کہ ہم بلاتحقیق پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نہ اپنی اصلی تاریخ کا پتہ چلتا ہے نہ ہی آٸین اور جمہوریت کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔ نتیجہ پھر یہ ہی نکلتا ہے کہ” جنے لایا گلی اودے سنگ ٹر چلی“ جنج کا نجام اونج دا خسرو