لوڈشيڈنگ کے عذاب ںے عوام کاجينا محال کر ديا ہے۔ مريض،بوڑھے،بچے،طالبعلم الغرض ہر کوئی لوڈشيڈنگ کی وجہ سے سخت پريشان ہے۔ کتنی بڑی ستم ظريفی ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود کوئ بھی حکومت اس جن پر مکمل قابو نہيں پا سکی- اگر دور رس حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی جاتی تو يہ مسئلہ کب کا حل ہو گيا ہوتا۔ الزام تراشيوں اور ماضی کی حکومتوں کو کوسنے کے بجاۓ کوئی بھی سنجيدگی سے اس مسئلے پر توجہ ديتا تو آج حالات کافی بہتر ہوتے۔
ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتيں عوام کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں خاموش ہیں۔ ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے دھرنے دئے جاتے ہیں مگر عوامی مسائل کے لئے کوئی گرمجوشی نہيں دکھائی جاتی۔ الیکشن کے قریب آتے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں مگر الیکشن کے بعد دعوے اور وعدے کرنے والے غائب ہو جاتے ہيں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر لگنے کے بجاۓ اشرافیہ کی شاہ خرچیوں اور عياشیوں کی نظر ہو جاتاہے اور بیچاری عوام وہیں کی وہيں رہ جاتی ہے۔ لوڈشيڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے چند تجاويز مندرجہ ذيل ہيں۔ جاری منصوبوں کو دن رات کام کر کے جلد از جلد مکمل کيا جاۓ- آزادانہ ذرائع سے آڈٹ کروا کر کرپشن اور تاخير کرنے والوں کو سزا دی جاۓ۔
بجلی کی چوری ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات کيے جائيں-مانیٹرنگ کا موثر نظام شروع کيا جائے۔ برطانيہ اور ديگر کئی ممالک کی طرح پوسٹ پيڈ کی جگہ پری پيڈ سسٹم متعارف کيا جاۓ۔
ترسيل کا نظام بہتر کيا جاۓ اور جديد ٹيکنالوجی کا استعمال کيا جائے تاکہ بريک ڈاؤنز اور لائن لاسز پر قابو پايا جا سکے۔ تمام اداروں اور افراد سے بقايا جات وصول کيے جائيں-اسی طرح خام مال مہيا کرنے والی کمپنیيوں اور اداروں کو بھی بروقت ادائگیاں کی جائيں۔
جيسا کہ ميں اپنے ايک سابقہ کالم ميں تحصيل کی سطح پر انڈسٹريئل زونز بنانے کی تجويز پيش کر چکا ہوں- ان زونز ميں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ايک ایک پاور پلانٹ لگا کر اپنی اور علاقے کی بجلی کی ضروريات بھی پوری کرنے کا پابند بنايا جا سکتا ہے-
ماحولیاتی تبدیلی،حدت میں اضافے اور گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے جیسے عوامل کی وجہ سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے- ترقی یافتہ اور مہذب ممالک ان مسائل سے نمٹنے کے لیے عرصہ دراز سے طویل المیعاد منصوبوں پر عمل پیرا ہیں ۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس حوالے سے مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے۔ اگر وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، اور جانے کون کون سے عوامل حصہ لیتے نظر آئیں گے، تاہم ماہرین کی اکثریت کے مطابق آبی قلت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پانی کے ذخائر اور ڈیمز کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔مستقبل میں پانی کے ذخائر پر انحصار کرنے کے بجاۓ توانائی حاصل کرنے کے ديگر ذرائع کو فروغ ديا جاۓ- سالڈ ويسٹ،شمسی،ونڈ مل وغيرہ سے بجلی بنانے کو ترجيح دی جاۓ۔
معزز قارئين ، زبانی جمع خرچ کرنے کے بجاۓ اگر سنجيدگی سے اقدامات کئےجائيں تو کوئی وجہ نہيں کہ لوڈشيڈنگ سے چھٹکارا نہ پايا جا سکے۔
ٹیگز: لوڈشیڈنگ
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں