"مردوں کے لئے عید کی چار چھٹیوں کا اعلان کیا جاتا ہے"

ادارتی نوٹ: ادارہ مصنفہ کے غم میں برابر کا شریک ہے۔

معاف کیجئے گا کہ آپ کو عید کی مبارک دینے میں ذرا دیر ہو گئی۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ عید کا دوسرا دن ہے۔ اگر ایڈیٹر صاحب چھاپنے میں تاخیر کریں تو گلہ ان سے کیجئے گا ہم سے نہیں۔ یوں تو تمام احباب کا عید کی مبارکوں کا تانتا چاند رات سے ہی بندھ جاتا ہے۔ ایک ہی تصویر مختلف نمبروں سے بار بار آتی ہے اور ہمارے فون کی میموری کو ہلکا کرتی ہے۔ عید کارڈ یاد آتے ہیں جن ہر کم سے کم لکھا تو ہاتھ سے جاتا تھا۔ ایک ہی کارڈ کی فوٹو کاپیاں سب کو نہیں بانٹی جاتی تھیں۔ خیر کیا کہیے۔

ہم ٹھہرے خاتون خانہ۔۔۔ عید کا ہم سے کیا لینا دینا

ہم ان میسجز سے اس قدر تنگ ہیں کہ ٹھانے بیٹھے تھے آپ کو محض ایک تصویر پر نہیں ٹرخائیں گے۔ لیکن شومئی قسمت وقت بالکل نہیں ملا۔ اسے محض بہانہ نہ سمجھئے گا۔ ابھی پوری داستان سنائیں گے تو آپ بھی ہم سے اتفاق کریں گے۔ ہم ٹھہرے خاتون خانہ۔۔۔ عید کا ہم سے کیا لینا دینا۔ عید تو مردوں کی ہوتی ہے۔ بچوں کی ہوتی ہے۔ عورت ذات کا عید سے کیا لینا دینا۔ یہی بات اگر کسی مرد کے سامنے کی جائے تو یکسر رد کر دی جائے گی کہ اصل تیاری تو عورتوں کی ہوتی ہے۔ ہم تو اسی کرتے پائجامے میں ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔

گھر کے مردوں کا دن بس سوتے اور کھاتے ہی گزرا

ہمارا مردوں کے اس دعوے سے یکسر اختلاف ہے۔ چاند رات سے جو گھر کے کاموں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ چاند رات کو سب کے کپڑے تیار کرنے سے لے کر شیر خرمہ بنانے اور گھر صاف کرنے تک کسی اوٹ سکون نہ تھا۔ صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ہمیں جاگنا تھا۔ اٹھے تو یہ انکشاف بھی ہوا کہ رات کو رہی سہی کسر آندھی پوری کر چکی تھی۔ صفائی کا ایک نیا دور چلا۔ مردوں کے گھر عید پڑھ کر آنے تک ہماری تیاری کیسے ہو پاتی؟ ان کے آنے پر کھانے پینے کا ایک نیا دور چلا۔ دوپہر بارہ بجے کے قریب امی کے گھر جانے کے لئے تیار ہوئے۔ وہاں گئے تو امی بھی ہمارے ہی حالات سے دوچار تھیں۔ دو گھنٹے میں گھر واپس آئے تو کپڑے بدل کر پھر کمر بستہ ہو گئے۔

گھر کے مردوں کا دن ذرا بورنگ تھا اور بس سوتے اور کھاتے ہی گزرا۔



کام بھی سارے ہم کریں اور چاند کو بھی شرمائیں ہم

یہ تھی ہماری عید۔ یہ کہنا کہ عید تو لڑکیوں کی ہوتی ہے، یکسر غلط ہے۔ خاص کر شادی شدہ خواتین کا تو عید پر سراسر کوئی حق نہیں۔ خدا نے تو عید مسلمانوں کو روزے کا انعام دی تھی۔ اس میں مرد و زن کی تخصیص کب ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔ ہمارے تو تہوار ہی گنے چنے ہیں۔ بس بڑی اور چھوٹی عید۔۔۔ اور ان کا بھی خواتین سے کوئی تعلق نہیں ماسوائے اس کے کہ ان کی تو ان تہواروں پر ڈبل شفٹ لگ جاتی ہے۔ اور اس پر یہ پریشر علیحدہ ہوتا ہے کہ خوب سجیں بنیں بھی۔ چاند کو شرمائیں بھی۔

سرکاری نوٹس پر یہ لکھوا بھیجئے کہ تمام مردوں کے لئے عید کی چار چھٹیوں کا اعلان کیا جاتا ہے

ایسے میں ہم سے وقت پر عید کی مبارکباد نہ دینے کا گلہ مت کیجئے۔ ایک تو ہماری کوئی عید وید ہوتی نہیں۔ اگر ہم عید منانے بیٹھ گئے تو یہ قوی امکان ہے کہ گھر کا کوئی مرد عید نہ منا پائے۔ آپ کی عید ہماری ہی مرہون منت ہے۔ یا تو عید کی تعطیلات میں ہمارا بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔ جہاں حکومت چھٹیوں کا اعلان کرے وہیں ہمارا حصہ علیحدہ مقرر کرے جس میں ہمارے پاس بھی بور ہونے کی آسائش ہو۔ ہم بھی بستر توڑیں۔ پکی پکائی کھائیں۔ کلف والے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھنے جائیں اور خوشبو لگا کر سب کو ملیں۔ ایک ایسی عید ہو جو ہماری ہو۔ جس میں ہم بھی وہی سب کر پائیں جو مرد کر پاتے ہیں۔ خوب آرام کریں۔ گھومیں پھریں۔

اگر ایسا ممکن نہیں تو آئندہ سرکاری نوٹس پر یہ لکھوا بھیجئے کہ تمام مردوں کے لئے عید کی چار چھٹیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو اگر چھٹی ملنی نہیں تو ان کے لئے عید کا نام بھی نہ لیا جائے۔ اس کا نام ڈبل شفٹ رکھ دیا جائے۔

اور ہاں عید مبارک کے میسجز کی تو بالکل توقع نہ رکھی جائے۔ یہ کھیل آپس میں ہی کھیلئے۔