مہربانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام زمیں بوس ہونے کو ہے

مہربانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام زمیں بوس ہونے کو ہے
اس میں دو رائے نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے وقت کے نہایت زیرک اور عالمی شہرت کے مالک سیاستدان تھے۔ تاریخ اور جغرافیہ پر ان کی نظر اتنی گہری تھی کہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے قبل از وقت آگاہی رکھتے تھے۔ 1970 کے انتخابات میں کامیابی اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد حالات کے جبر کے تحت وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم بنے۔ اعلیٰ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود وہ ایک بڑے جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خاندانی پس منظر نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔

ایک تباہ حال اور شکست خوردہ ملک کو جس طرح انہوں نے سنبھالا وہ کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اپنے مخالفین اور میڈیا پر جبر اسی طرح کیا جیسے وڈیرے اپنے کمی اور ہاری سے کرتے ہیں۔

حزب اختلاف کے تمام قابل ذکر رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کر کے پس زنداں دھکیل دیا۔ اس وقت چونکہ الیکٹرونک میڈیا کے نام پر صرف ایک پی ٹی وی ہی تھا جو پہلے دن سے آج تک سرکاری بھونپو کا کام انجام دیتا آ رہا ہے لیکن پرنٹ میڈیا کے ہر اس اخبار کو بند کیا اور اس کے ایڈیٹرز اور پبلیشرز وغیرہ کو بھی جیل کی ہوا کھلائی جنہوں نے بھٹو صاحب کی پالیسوں کے خلاف لکھا۔ اپنے ان اقدامات کے نتیجے میں بھٹو صاحب تنہا رہ گئے اور پھر جو کسر رہ گئی تھی وہ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی نے پوری کر دی اور اس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہمارے ' مہربان' جو اقتدار کی جدائی میں بے حال ہوئے جا رہے تھے انہیں عزیز ہم وطنوں کہنے کا موقع مل گیا۔

کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماضی سے سیکھتا ہے لیکن مملکت خداداد میں جس طرح ہر آمر یہ سوچ کر آتا ہے کہ پچھلوں نے جو غلطی کی وہ اس سے سرزد نہیں ہوگی (جبکہ وہی غلطی اس سے بھی سرزد ہوتی ہے) اسی طرح ہمارے موجودہ حکمرانوں کیلئے بھی بھٹو کے دور حکومت میں ایک سبق پوشیدہ تھا لیکن افسوس یہ بھی ہر آمر کی طرح وہی غلطی کر بیٹھے۔

تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ ایک غلطی جتنی بار بھی دھرائی جائیگی نتیجہ ہر بار پہلے والا ہی ہوگا۔ ہم نے مندرجہ بالا تمہید اس لئے باندھی ہے کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ماضی قریب میں کئی مواقع پر بھٹو صاحب کی مثال دیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اب اگر ہم تجزیہ کرنے بیٹھیں تو عمران خان صاحب کا ذوالفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ ذوالفقار علی بھٹو برطانیہ اور امریکہ کی اعلیٰ درسگاہوں سے فارغ التحصیل تھے جبکہ عمران خان صاحب آکسفورڈ یونیورسٹی سے صرف بی اے کی ڈگری رکھتے ہیں وہ بھی تھرڈ کلاس میں۔

بھٹو صاحب کو تاریخ پر عبور حاصل تھا جبکہ موصوف کو نہ تاریخ کا علم ہے نہ جغرافیہ کا پتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بات دنیا سنتی تھی جبکہ ان کی باتوں پر دنیا ہنستی ہے۔ صرف ایک چیز دونوں میں مشترک ہے اور وہ ہے حزب اختلاف کے رہنماؤں اور میڈیا کے خلاف مقدمات اور انہیں نظر زنداں کرنا۔

اب یہ بھی دیکھیں کہ بھٹو صاحب دوسری جماعتوں کی بیساکھی کے سہارے حکومت نہیں کر رہے تھے اس کے باوجود وہ اکیلے رہ گئے، جبکہ موصوف کی حکومت کا یہ حال ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی جماعتوں کے سہارے کھڑی ہے۔ 17 جون کو صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ جناب اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق میں سے کوئی ایک جماعت بھی حکومت کو خیر آباد کہتی ہے تو 'مہربانوں' کا بنایا ہوا یہ مصنوعی نظام زمیں بوس ہو جائیگا، کسی شاعر نے شائد اسی موقع کیلئے کہا ہے کہ؛

یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی

ایک نس، ٹس سے مس اور بس

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔