Get Alerts

دعا زہرا کو ورغلانا بھی اغوا کے زمرے میں آتا ہے: جبران ناصر

دعا زہرا کو ورغلانا بھی اغوا کے زمرے میں آتا ہے: جبران ناصر
دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ لڑکی کو بازیاب کرکے ریاستی سرپرستی میں رکھا جائے۔ دعا زہرا کے کیس میں دوبارہ تفتیش کیلئے آئی جی سے گزارش کی ہے۔ بچی کو ورغلانا بھی اغوا کے زمرے میں آتا ہے۔

جبران ناصر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کیلئے درخواست دے رکھی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا ہے کیس ختم ہو چکا ہے لیکن پولیس کا موقف حتمی نہیں ہوسکتا۔ ایک فرد کی رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جائے بلکہ بورڈ بنایا جائے۔

https://twitter.com/MJibranNasir/status/1538091851382722560?s=20&t=MJYhjLC2IZJn2IqLR5QxUQ

ان کا کہنا تھا کہ 2 سال پہلے آرزو کیس میں یہی مشکلات دشواری پیش آئی تھی۔ عمر کے مسئلے پر فیملی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جبکہ دعا کے کیس میں ایسا نہیں ہوا۔ چالان کو  قبول نہیں کیا گیا اور پولیس کا بیان حتمی بیان نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرا کے والد نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکردی

خیال رہے کہ دعا زہرا کے والد نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے 8 جون 2022ء کو دعا زہرا کو اس کی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں خامی ہے، درخواست پر فوری سماعت کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں دعا زہرا کی عمر 17 سال بتائی گئی ہے جب کہ نادرا ریکارڈ اور تعلیمی اسناد کے مطابق دعا زہرا کی عمر 14 سال ہے، پولیس نے کیس کا چالان سی کلاس میں ٹرائل کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔

دعا کے والد مہدی کاظمی کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں خامی ہے، درخواست پر فوری سماعت کی جائے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ 8 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے دعا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دی تھی۔

تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ بیان حلفی کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہےکہ دعا زہرا اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جاناچاہے یارہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ تمام شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا، دعا کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے ، ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے۔