لاہور سے چھپنے والے اخبار کی خبر "6 سال میں 25 ارب روپے کا خسارہ، پاکستان پوسٹ کی نجکاری کا فیصلہ" بظاہر دو کالمی معمولی سی خبر ہے۔ لیکن در حقیقت یہ خبر ارباب اختیار، پاکستان پوسٹ کے سربراہان اور ادارے کی پالیسیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پاکستان پوسٹ آفس ایک وفاقی ادارہ ہے۔ اس کی شاخیں ملک کے مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک ملک کے کونے کونے میں مو جود ہیں۔
پاکستان پوسٹ کے وسائل
وطنِ عزیز کا کوئی ایسا شہر، قصبہ، گاؤں نہیں ہے جہاں پوسٹ آفس کی برانچ موجود نہ ہو۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے اس ادارے کی 13000 کے لگ بھگ شاخیں ہیں جن میں پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگ کام کرتے ہیں۔ جو کہ ادارے کے حجم اور ذمہ داریوں کی نسبت بہت کم ہے۔ ادارے کے پاس 100 کھرب روپے سے زائد مالیت کی 4500 سے زیادہ عمارتیں ہیں۔ جن میں سے 3500 سے زیادہ عمارتیں کمرشل ہیں۔ تاریخی ورثہ قرار دیے جانے والے لاہور جی پی او سمیت پاکستان بھر میں 85 جی پی اوز ہیں جو شہروں کی پرائم لوکیشن پر موجود ہیں۔ اس کے باوجود محکمہ ڈاک مسلسل خسارے کا شکار ہے اور یہ خسارہ پچھلے چھ سال کی عرصہ میں پچیس ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے خود ادارے کے اپنے سربراہان ہیں
پاکستان پوسٹ کی قبرکھودنے میں صرف پرائیویٹ کورئیر کمپنیوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ اس نہج تک اپنے ہاتھوں سے لے کے جانے میں اس ادارے کے سربراہان اور زمانہ قبل از فرعون کی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس مملکتِ خداداد کا نام ہے جسکی بنیاد ہے "لا الہ الااللہ"۔ نہایت دکھ ہے کہ بنیاد کے اوپر لگایا گیا مٹیریل اس کمپنی کا نہیں ہے جس کمپنی کا سامان بنیاد میں ہے۔
آپ کے ملک، جس میں آپ نے پیدائش سے لے کر بعد از وفات تک رہنا، جینا اور مرنا ہے کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ خود بخود ہی سب کچھ ٹھیک چلتا رہے گا۔ بحیثیتِ شہری آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمیں یہ سوچ بدلنا ہو گی۔
گھر کو گھر سمجھنا شروع کیجئے
اپنے گھر کے باتھ روم میں استعمال کرنے کیلئے ٹوائلٹ کلینر بھی خریدنے کے لئے جائیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ کسی کمپنی کی پراڈکٹ اچھی، سستی اور معیاری ہے۔ قیمت کس کی مناسب ہے۔ سائیڈ افیکٹ کس کا کتنا ہے۔ میری جیب کیا کہتی ہے۔ تب جا کر آپ ٹوائلٹ کلینر خریدیں گے۔ اس کے برعکس آپ کے ملک، جس میں آپ نے پیدائش سے لے کر بعد از وفات تک رہنا، جینا اور مرنا ہے کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ خود بخود ہی سب کچھ ٹھیک چلتا رہے گا۔ بحیثیتِ شہری آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمیں یہ سوچ بدلنا ہو گی۔ ہمیں اس دیس کو جس نے ہمیں پہچان دی، کو اپنا گھر سمجھنا ہو گا۔ اس کے نفع نقصان کو اپنا نفع نقصان ماننا ہو گا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم نے محنت کر کے اپنا مستقبل محفوظ کرنا ہے یا سب کچھ پرائیوٹائز کرتے جانا ہے۔ پرائیوٹائز کرتے جائیں گے تو بہت دیر نہیں گزرے گی جب ہمارے اقتدار کے ایوانوں کا حال بہادر شاہ ظفر کے ایوان جیسا ہو جائے گا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلاموں سے بھی بدتر ہو گیا تھا۔
مسئلے کا حل موجود ہے، صرف اس پر عمل کرنا ہے، نیت تو کریں
اور اگر ہم آج یہ طے کر لیں کہ ہم نے پاکستان پوسٹ آفس کو پرائیوٹائز نہیں کرنا، ہم نے اس کے موجودہ عملہ کو ہی استعمال کرتے ہوئے بغیر کسی انویسٹمنٹ کے صرف اتنا کرنا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کو قانون کے دائرے میں لا کر پا بند کر دینا ہے کہ کوئی ایک کاغذ بھی اگر پو سٹ کرنا ہے تو کسی بھی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے نہیں بلکہ پاکستان پوسٹ کے توسط سے بھیجیں گے اور پاکستان پوسٹ کو ہدایات دی جائیں کہ اگر کریں گے تو رہیں گے ورنہ مٹ جائیں گے، جس ڈاک کو سات دن میں منزل تک پہنچاتے ہیں اسے تین دن میں پہنچائیں گے، سرکاری وسائل کو ذاتی نہیں عوام کی خدمت کے لئے استعمال کریں گے، ادارے کی موجودہ برانچوں کو ہی اس طرح منظم کریں گے کہ ریونیو میں اضافہ ہو سکے، عملے کی تنخواہوں میں اضافہ ہو سکے، ترسیل کے اخراجات کم ہو سکیں، ادارے میں کام کرنے والے تمام ملازمین جو سکیل 1 تا 15 میں ہیں کی تنخواہوں میں پوسٹل الاؤنس متعارف کروائیں گے جو ان کی بنیادی تنخواہ کے برابر ہو، ملک کے دور دراز علاقوں میں موجود ان دفاتر کو جن کی عمارتیں کسی بھی وقت زمیں بوس ہونے کا خطرہ ہے کو ہنگامی بنیادوں پر مرمت کروائیں گے، ایسے دفاترجہاں کام تھوڑا اور عملہ زیادہ ہے وہاں سے عملہ ان دفاتر میں ٹرانسفر کیا جائے گا جہاں کام زیادہ اور عملہ کم ہے، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
ادارے کو ٹھیک کرنے کوئی آسمان سے نہیں اترے گا، لوگ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں
اس خاکے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے حکومت کو اس صورت میں ضرورت محسوس ہو گی اگر وہ پاکستان پوسٹ آفس کو عوام کی فلاح کیلئے استعمال کرنا چاہے گی۔ افسران کی فوج ظفر موج اس کام کیلئے کچھ نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ یہ کام کسی فوج کا نہیں صرف ایک اچھے ٹیم لیڈر کا ہے۔ المیہ ہے کہ جو کام کرتا ہے اسے کرنے نہیں دیا جاتا۔ اور جس کے وسائل ہوتے ہیں وہ اس ملک میں اپنا آپ "ضائع" نہیں کرنا چاہتے کہ کیا رکھا ہے اس ملک میں تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں اور پرواز کرجاتے ہیں گوروں کے دیس "خدمتِ خلق" کے لئے۔ اس وقت وطنِ عزیز میں ایسے مایہ ناز افراد ہیں کہ جس کام کو شروع کیا، بہتر سے بہترین کے درجے تک پہنچا کر دم لیا۔ ان میں سے کوئی ایک اگر اس ذمہ داری کے لئے منتخب ہوتا ہے تو امید رکھیں کہ نہ صرف پاکستان پوسٹ آفس پرائیوٹائز ہونے سے بچ سکتا ہے بلکہ ملک کا سب سے زیادہ منافع بخش ادارہ بھی بن سکتا ہے۔
برطانیہ میں ڈاک کی ترسیل کیلئے سب سے معتبرادارہ "یو کے میل" ہے جو نہ صرف تیزترین بلکہ محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ لو گ اسے استعمال کرتے، اس پر اعتماد کرتے اور اسے کامیاب بناتے ہیں۔ ہمیں بھی پاکستان پوسٹ آفس کی بحالی کیلئے اس طریقے کو استعمال کرنا ہو گا۔ اس پر بھرو سہ کرنا ہوگا۔ اور اسے کامیاب بنانا ہو گا۔ پھر دیکھیں سب سے زیادہ منافع بخش ادارہ بنتا ہے یا نہیں۔ اگر پھر بھی عقل کے چیمپیئن یہ الجبراء حل نہ کر سکیں تو عوام سے رائے لے لیں کہ عوام ہی اصل پاکستان ہیں۔