بلوچستان حکومت کے ناراض ارکان اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان اختلافات میں مزید شدت آگئی۔
اطلاعات کے مطابق اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور ناراض وزراء نے آئندہ چند دنوں میں مستعفی ہونے کی مشاورت مکمل کرلی حتمی فیصلہ کوئٹہ کی اگلی میٹنگ میں کیا جائیگا جبکہ ناراض اراکین نے آنے والے بجٹ سیشن کا حصہ نہ بننے پر بھی اتفاق کرلیا ہے۔
اردو پوائنٹ کی خبر کے مطابق بلوچستان حکومت کے ناراض ارکان کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ناراض ارکان اور وزیراعلیٰ کے ددرمیان خلیج اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب تعلقات بہتر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے حالات میں جب وزیراعلیٰ نے اپنی پارٹی کے وزراء اور اسپیکر کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ان حالات میں وہ مزید حکومت کا حصہ نہیں رہ سکتے اس سلسلے میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو، سابق وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی اور پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر وزیر تعلیم سردار یار محمد رند اور دیگر ارکان نے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونے اور بجٹ کا حصہ نہ بننے پر مشاورت کرلی ہے ناراض ارکان آئندہ دو روز میں کوئٹہ پہنچیں گے جہاں وہ حتمی مشاورتی نشست کے بعد اپنے فیصلوں کا اعلان کریں گے ۔
یاد رہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے صوبائی حکومت میں حکمران جماعت بی اے پی کے بعض ارکان اور پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے وزیراعلیٰ نے نہ صرف وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی سے ان کے محکمے کا قلمدان واپس لیا بلکہ اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے اور اسپیکر سے ان کے وزرارت اعلیٰ کے دور میں لی جانے والی گاڑیوں کی واپسی کیلئے ایک خط بھی لکھا وزیراعلیٰ بلوچستان نے پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند کو نہ صرف ہدف تنقید بنایا اور اپنی جماعت کے وزیرخزانہ میر ظہور بلیدی کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں بجٹ کے حوالے سے منعقدہ اجلاسوں میں مدعو نہ کرکے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ذرائع کے مطابق ناراض ارکان نے جلد ہی اپنے عہدوں اور وزارتوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیاہے بجٹ سے قبل ناراض ارکان دیگر ہم خیال ارکان کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل طے کریں گے۔
ذرائع کے مطابق ناراض ارکان نے حکومت کا حصہ نہ ہو نے اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ یہ لوگ آئندہ آنے بجٹ کا بھی حصہ نہیں بنیں گے۔