سینئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ حکومت کا اس سیاسی گرداب سے نکلنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو ختم کرنے کا اقدام اٹھانا ہی تھا تو ملک کی معاشی صورتحال کو سٹڈی ہی کر لیا جاتا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پنجاب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ مخالف فریق جان نہیں چھوڑے گا اور اسے ہر سطح پر لے کر جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ کہ اپنے کندھے جن مقاصد کیلئے دیئے ان کا تو تاریخ فیصلہ کرے گی کہ وہ درست تھے یا نہیں لیکن کیا حکومت کو اس چیز کا علم نہیں تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کیساتھ ایک معاہدہ طے پا چکا ہے۔ لیکن یہ عوام سے وعدہ کرکے آئے کہ آپ کو پیٹرول اور بجلی میں رعایت دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی حکومت سے سوال کیا تھا کہ اس نے پیٹرول کی مد میں رعایت دینے اور بلیک منی کو پاکستان لانے کی اجازت کیوں دی؟ لیکن پی ڈی ایم حکومت گرا کر اقتدار میں آ گئی، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ اب یہ جواب ان کو دینا پڑے گا۔ اب ان سے جواب نہیں بن پا رہا کہ دیں یا نہ دیں۔ ہم بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائیں یا نہ بڑھائیں۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ یہ بات طے ہے کہ اگر بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھائی گئیں تو آئی ایم ایف کبھی پاکستان کی بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو پھر ناصرف چین، سعودی عرب اور قطر بھی بات نہیں سنے گا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اس سے قبل کہ ملک کی اقتصادی حالت مزید بگڑ جائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے اور انتخابات میں جائے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ جس پارٹی کے ساتھ ان کا واسطہ پڑا ہے وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی۔ جو بھی نگران سیٹ اپ آیا، پی ٹی آئی اس میں ان کا ہرگز ساتھ نہیں دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کسی نے بھی اس خرابی کی پلاننگ کی بڑی کمال کی ہے۔
پروگرام میں شریک گفتگو کامران بخاری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا تھا کہ ہم اب نیوٹرل ہیں اور ہمارا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب ایسے سیاستدان جن کی سیاست ہی اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتی ہے اور وہ اس کے بغیر کچھ نہیں، ان کو دیکھا جائے تو منظر نامہ کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔
کامران بخاری کا کہنا تھا کہ ان تمام سیاسی ایکٹرز کے بزنس کا دارومدار اس چیز پر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ وہی کام کیا جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ لیکن اب ان لوگوں نے ایک ایسا جارحانہ انداز اختیار کرلیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی منشا نہیں ہے۔ ان سیاستدانوں کا عمران خان کیساتھ ڈٹے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور میسجنگ ہو رہی ہے۔ جس میں ان سیاستدانوں سے کہا جا رہا کہ وہ اپنے بیانیہ پر ڈٹے رہیں۔