کسی بھی سماج کو اگر جمود کا شکار کرنا ہو، ذہنوں کو منجمد کرنا ہو، عوام کو لکیر کا فقیر بنانا ہو، ان کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کرنی ہو اور انسانی دماغوں کو فقط شناختی کارڈ کے نمبروں میں تبدیل کرنا ہو تو وہاں انسانی سوچ پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ عوام سے سوچنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کر دیا جاتا ہے۔ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جہاں انسانی حقوق پامال کر دیے جائیں، سیاسی اختلاف رائے کو کچل دیا جائے اور جو ذی شعور حاکم وقت کے ساتھ اختلاف کرے اسے پاہند سلاسل کر کے اس کی زبان بندی کر دی جائے۔ یہی سب کچھ پچھلے ایک سال سے وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔
مبینہ آپریشن رجیم چینج کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت نے ایک طرف مہنگائی کا سونامی برپا کر دیا ہے تو دوسری طرف اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان پر مقدمات کی سنچری مکمل کر دی ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایک سیاسی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے اور اپنے سیاسی مخالفین پر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے تا کہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے مگر ادھر گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ 13 جماعتوں کا بھان متی کا کبنہ برسراقتدار ہے مگر پھر بھی ایک اور صرف ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ الیکشن سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے اور اس جماعت کے سربراہ عمران خان سمیت دیگر قائدین پر مقدمات کی بھرمار کر رہا ہے۔
معاملات صرف مخالف سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ لکھاریوں، صحافیوں اور دانشوروں تک پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کی کٹھ پتلی نگران حکومت جن میں کچھ صحافی نرتکیاں بھی شامل ہیں انہوں نے عمران ریاض، آفتاب اقبال اور اوریا مقبول جان کو گرفتار کر کے بد ترین فسطائیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بے شرم نگران حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ان کی خدمات بھاڑے پر دستیاب ہیں۔
عمران ریاض کی یہ تیسری گرفتاری ہے۔ وہ ایک رپورٹر تھا جو ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اینکر پرسن بنا۔ آج پاکستان کا مقبول ترین صحافی ہے۔ اس کا یوٹیوب چنیل دیکھنے والوں کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ آپ کو اس کی رپورٹنگ پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ اس کو اغوا کر کے لاپتہ کر دیا جائے۔ ابھی تک عمران ریاض لاپتہ ہے۔ صحافت کی ایک توانا اور دبنگ آواز سے مکس اچار حکمران اتحاد بہت خوفزدہ ہے۔
آفتاب اقبال ایک ڈرامہ نگار، ہدایت کار، اینکر پرسن اور کالم نگار ہیں۔ بہت ہی وسیع المطالعہ اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے انسان ہیں۔ بے شک ان کی سوچ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان سے ان کی آزادی اظہار کو چھین لینا اور صرف اس بات کی سزا دینا کہ وہ عمران خان کے دوست ہیں یہ ثابت کرتا ہے کہ مکس اچار حکمران اتحاد اور بے شرم نگران حکومت پنجاب کس قدر سطحی سوچ رکھتی ہے۔ آفتاب اقبال کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر رہائی مل چکی ہے۔
اوریا مقبول جان سابق بیورو کریٹ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کوئٹہ مرکز سے ان کے لاتعداد ڈرامہ سیریل چلے۔ مختلف اخبارات سے بطور کالم نویس وابستہ رہے۔ پھر سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مکمل طور پر میڈیا سے وابستہ ہو گئے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر بطور تجزیہ کار شریک ہوتے ہیں اور اپنا یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ ان کی گرفتاری اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر رہائی بھی ان خوفزدہ جکمرانوں کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ اوریا مقبول جان کی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے آزادی اظہار کے حق پر قدغن لگانا درست نہیں۔
اب صرف عمران ریاض لاپتہ ہیں۔ ان سے صرف یہ حکمران اتحاد ہی خوفزدہ نہیں بلکہ ان کے سہولت کار بھی خائف ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کا کیس زیر سماعت ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ خیروعافیت سے ہوں۔ ہم ارشد شریف شہید جیسا سانحہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حرف آخر یہ کہ بول ٹی وی کے آکاش رام بھی لا پتہ ہو چکے ہیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔