ایک دن جب میں اٹھارہ سال کا ہوا زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ آدھی رات کو میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اس سے پہلے بھی میں رات کو ایسے ہی اٹھ کر بیٹھا تھا۔ مگر اس رات میرے چہرے پر بے چینی پہلے سے ذرا زیادہ تھی۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرہ تھا۔ اس تاریکی کے باعث پوری طرح سے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا جہاں میں اس رات سویا تھا اس رات راستے پر چلنے کی آوازیں مجھے سنائی دیتی تھیں۔ سب اجنبی اجنبی سا بے معنی سا لگ رہا تھا اور سب سے بڑھ کر کہ مجھے اپنا آپ بھی بے معنی سا محسوس ہورہا تھا۔
اس کے بعد میرے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے کہ اس مصیبتوں سے بھری زندگی کا کیا فائدہ؟ اس مصیبت زدہ زندگی کو جاری رکھنے کا کیا فائدہ ؟ جینے کی کوشش کیوں جاری رکھی جائے؟ اس طرح کے سوالات مجھے ستانے لگے اور میرے اندر مرنے کی خواہش مزید مضبوط اور جینے کی خواہش مرنے لگی۔ میں مزید اپنے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اس سوچ پر آ کر میری سوچ ختم ہوگئی۔
پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ میں ایک ہوں یا دو۔ اگر میں اپنے ساتھ نہیں رہ سکتا تو اسکا کیا مطلب ہے کہ میں ایک نہیں دو ہوں اور دوسرا کیا وہ جس کے ساتھ میں نہیں رہ سکتا۔ ان میں سے کون حقیقت ہے؟مجھے اپنی اس سوچ پر حیرانی ہوئی اور میرے اندر سے بھی آوازیں آئی۔ مزاحمت کرنا چھوڑ دو۔ سکون مل جائے گا۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا؟ شاید مجھے پرسکون نیند آ گئی ہو گی۔
صبح کے وقت میں پرندوں کی آوازوں سے جاگا۔ میں نے کبھی صبح کے وقت ایسی آوازیں نہیں سنی لیکن اس وقت بھی میری آنکھیں بند تھی اور کافی دیر تک آوازوں کے سرور میں رہا۔ پھر جب میں نے آنکھیں کھولی تو مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں اندھیرے سے زیادہ روشنیاں ہیں اور ہر کوئی روشنی پسند کرتا ہے اندھیرا کوئی بھی نہیں۔
زندگی چاہے جیسے بھی ہو اندھیراہو یا روشنی ہو، خواہشات کو خود پر حاوی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ زندگی کو گزار لینا چاہیے، وقت ایک جیسا نہیں رہتا کیونکہ اندھیرے کے بعد روشنی ہوتی ہے۔