Get Alerts

میرے شہر جل رہے ہیں ، میرے لوگ مر رہے ہیں!

میرے شہر جل رہے ہیں ، میرے لوگ مر رہے ہیں!
میں عموماً ایسے حساس موضوعات پر لکھنے سے گریز کرتا ہوں مگر ابھی کالم لکھتے ہوئے جو ملک میں بالخصوص لاہور میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور قانون نافذ والے اداروں بالخصوص پولیس کے درمیان تناؤ اور جھڑپوں کی صورتحال ہے اسے دیکھ کر رہا نہیں گیا اور سوچا کہ اس کو تحریر کرنا چاہیۓ۔

اس تمام صورتحال کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے کیوں کہ اس وقت ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ہم خود ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیۓ کافی ہیں۔

اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس کی کڑیاں پچھلے سال سے جا ملتی ہیں جب فرانس میں گستاخ کارٹونسٹ نے پیارے آقا حضرت محمد ص کے بارے میں توہین آمیز خاکے شائع کیۓ اور ان کی اشاعت کے خلاف تحریک لبیک پاکستان نے اپنے ملک پاکستان میں فرانس کے خلاف احتجاج شروع کرتے ہوئے فیض آباد راول پنڈی کے مقام پر دھرنا دیا اور اس وقت کے تحریک کے سربراہ خادم رضوی مرحوم نے حکومت سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔

دو روز تک جاری رہنے والے دھرنے کا خاتمہ آخرکار حکومت اور تحریک کے درمیان ایک معاہدے کی شکل میں ہوا۔جس پر اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور اسلام آباد انتظامیہ کے عہدے داراں نے دستخط کیۓ۔

اس معاہدے کے مطابق حکومت نے تحریک لبیک کے رہنماؤں کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ فرانس کے سفیر کو دو سے تین مہینہ میں ملک بدر کر دیا جائے گا اور فرانس میں بھی پاکستانی سفیر تعینات نہیں کیا جائے گا،تمام فرانسیسی مصنوعات کا ملک میں سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا اور دھرنے میں گرفتار کارکنان کو رہا کر دیا جائے گا۔

16 نومبر 2020 کو ہوئے اس معاہدے کے خاتمے کا وقت جوں ہی قریب آیا،حکومت نے تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا جس کے مطابق فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پارلیمان سے مشروط کیا گیا اور اس مقصد کے لیۓ 20 اپریل 2021 تک کا وقت مانگ لیا گیا۔اس دفعہ حکومت کی جانب سے وفاقی مذہبی وزیر اور شیخ رشید نے دستخط کیۓ۔

تحریک لبیک نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں 20 اپریل کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دی تھی جس کے نتیجہ میں 12 اپریل کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے درمیان ہونے والی ملاقات کے چند گھنٹوں کے بعد تحریک لبیک کے موجودہ رہنما حافظ سعد رضوی کو لاہور میں سرعام گرفتار کیا گیا اور اس گرفتاری کے چند لمحے بعد ہی سوشل میڈیا پر گرفتاری کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس کے بعد ملک کے بیشتر مقامات پر پولیس اور تحریک کے مظاہرین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں ۔ان جھڑپوں کے بعد تحریک لبیک کے کارکنوں کے پرتشدد احتجاج کو جواز بنا کر حکومت نے اس سیاسی و مذہبی جماعت پر پابندی عائد کر دی۔

اس پابندی کے بعد حالات سدھرنے کی بجائے اور زیادہ انتشار کا شکار ہونا شروع ہو گئے اور دین کے نام پر باہر نکلنے والوں کی پرتشدد کاروائیوں کا پولیس کی جانب سے جواب دیا گیا مگر دونوں طرف میرے اپنے پاکستان کے لوگ ہی زخمی ہو رہے ہیں۔دونوں طرف میرے اپنے پاکستان کے لوگ ہی مر رہے ہیں۔املاک تباہ ہو رہی ہیں اور عام عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اب موجودہ وزیر داخلہ فرما رہے ہیں کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرے گی جو کہ بہت اچھی بات ہے مگر کاش کہ یہ بات اس وقت بھی فرماتے جب 2017 میں فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کا دھرنا جاری تھا اور وزیر موصوف اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں میں تشریف فرما تھے۔اس وقت اس سیاسی و مزہبی تنظیم نے نواز حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کیا تھا۔اس دھرنے کے خاتمہ پر ایک ویڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں اعلیٰ عسکری ادارے سے تعلق رکھنے والے صاحب شرکاء میں روپے بانٹ رہے تھے تاکہ وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک لبیک حکومتوں کو مزہبی بنیاد بنا کر بلیک میل کرتی آئی ہے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا جب انہوں نے پہلی دفعہ ایسا کیا تھا اس وقت ہی حکومت اور اپوزیشن مل کر اکٹھے کھڑے ہوتے اور بلا وجہ مذہبی کارڈ استعمال نہ کرنے دیا جاتا۔

اب یہ خود کا بویا بیج ہے اس لیۓ فصل تو کاٹنی پڑے گی۔ابھی بھی یہ چاہیۓ کہ جن لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ان کے خلاف کاروائی ہو اور باقی باتیں مزاکرات سے ختم ہوں ورنہ خدانخواستہ یہ آگ مزید پھیلنے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

جو صاحب ان میں 2017 میں روپے تقسیم کرتے پھر رہے تھے ان کو بھی چاہیۓ کہ اگلی دفعہ ایسا ایڈوینچر کرنے سے باز رہیں جس کا خمیازہ ملک کو اور عوام کو نسلوں تک بھگتنا پڑے۔

اگر تحریک لبیک پر پابندی حکومت کا آخری فیصلہ ہے تو پھر اس بات کا بھی دھیان رکھا جائے کہ ملک کی دیگر عوام کو اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے اور یہ آگ یہیں پر بجھ جائے۔

علما کو بھی ریاست کے تحفظ کے لیۓ اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔حکومت کو بھی اگلی دفعہ کسی بھی جماعت سےکوئی جھوٹا وعدہ کرنے کی بجائے معاملات کو اسی وقت نمٹانا چاہیۓ ورنہ پانی سر سے گزر جائے تو پھر چلانے سے کیا فائدہ؟

فرانس کی حکومت کو تو ہمارے آپس میں مرنے مارنے سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہمیں یہ سب تو پیارے آقا محمد ص نے نہیں سکھایا۔ یہ تشدد اور جلاؤ گھیراؤ تو اس پاک ہستی کی تعلیم ہرگز نہیں ہے۔ وہ تو رحمتہ اللعالمین ہیں جو کہ دشمن سے بھی ذاتی بدلہ نہیں لیتے تھے۔

؎ میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔