افغانستان میں تعینات پاکستان کے ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی سفارت خانے پر حملے کے پانچ ماہ بعد واپس افغان دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے تصدیق کی کہ پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی واپس کابل پہنچ گئے ہیں۔
عبیدالرحمٰن نظامانی کی افغانستان واپسی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور نائب وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان فون کال کے بعد ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفیر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ اسی ٹیلی فون کال کے دوران کیا گیا۔
افغان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک الگ بیان میں کہا کہ عبید الرحمان نظامانی نے کابل پہنچنے کے بعد امیر خان متقی سے ملاقات کی۔
افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی نے پاکستانی سفیر کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی واپسی سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بہتری آئے گی۔
ملاقات میں افغان وزیر خارجہ نے کراچی کی جیلوں سے افغانیوں کی اکثریت کی رہائی کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا اور عید الفطر سے قبل باقی ماندہ افغانوں کی رہائی پر زور دیا۔
افغان وزارت خارجہ کی طرف سے زور دیا گیا کہ وہ ویزہ کے اجراء کے عمل میں شفافیت کو مزید بڑھائے۔
عبید الرحمان نظامانی نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی واپسی سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی اور مزید کہا کہ پاکستانی سفارت خانہ ویزوں کے حصول کو آسان بنانے کے لیے وزارت خارجہ افغانستان کے ساتھ تعاون کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 3 دسمبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا جہاں ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوگیا تھا۔
دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا، بعدازاں کالعدم داعش کے خراسان چیپٹر نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس وقت عبید الرحمٰن نظامانی کو کابل میں مشن کے سربراہ کے طور پر ذمہ داری سنبھالے ایک ماہ ہوا تھا جہاں ان سے قبل 4 نومبر 2022 کو سابق سفارت کار منصور احمد خان مشن کے سربراہ تھے۔
حملے کے ٹھیک 10 دن بعد کابل کے ایک ہوٹل میں بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں 5 چینی شہری زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد چین نے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 5 جنوری کو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور چینی باشندوں پر حملے میں ملوث ’داعش‘ کے عسکریت پسندوں کا ایک گروہ فورسز کی کارروائی کے دوران مارا گیا۔
فروری میں سرکاری ذرائع نے سفارت کاروں کے انخلا کی افواہوں کو مسترد کیا تھا جبکہ زور دیا تھا کہ سفارتی حکام کو واپس بھیجنے سے قبل وہ افغان حکومت سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دریں اثنا اسی ماہ کے دوران افغان حکام کے ساتھ سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے کابل جانے والے وفد میں عبیدالرحمٰن نظامانی بھی شامل تھے جہاں دونوں فریقوں نے خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے، خاص طور پر کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے خراسان گروپ سے متعلق بات چیت کی تھی۔