سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی 14 مئی کو انتخابات کا حکم واپس لینے اور ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو کل طلب کر لیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ملک میں انتخابات ایک ساتھ کروانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ وزارتِ دفاع اور 2 شہریوں نے انتخابات ایک ساتھ کرانے کیلئے عدالتِ عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے فنڈز فراہمی کے متعلق دوبارہ جواب طلب کیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انتخابات کیلئے فنڈز نہ دینے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے وزیراعظم پرعدم اعتماد کے بھی نتائج ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مولا ہمیں ہمت دے کے صیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے اور جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔
ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے۔ حکومت نے اپنا ایگزیکٹو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کوشکست ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظور ہوچکی ہیں۔ موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔کیا آپ کا کیس یہ ہےکہ حکومت ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سنجیدہ ہے لیکن پارلیمنٹ نے منع کر دیا؟ وزیراعظم کو پارلیمنٹ کی اکثریت کو اعتماد میں لینا تھا۔
عدالتِ عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ حکومت آئینی عمل کے لیے فنڈز کی فراہمی پر مثبت جواب دے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سکیورٹی صورتحال سے متعلق ہمیں بتایا گیاہے۔الیکشن کمیشن کو کیوں لگتا ہے کہ ماضی سے اب صورتحال بہت خراب ہے؟ ماضی میں دہشت گردی کے دوران بھی الیکشن ہوا۔ محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے سال بھی انتخابات ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں۔ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ اس سے پہلے انتظامی امور قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کو بھجوانےکی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں، غیر اہم نہیں۔ حکومت کا گرانٹ مسترد ہونےکا خدشہ اسمبلی کے وجودکے خلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون گارنٹی دے گا کہ 8 اکتوبر کو حالات پر امن ہوں گے؟ وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں۔
الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے۔ الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس بات پرکئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔
دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے۔1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جس کے باعث الیکشن نہیں ہوسکتے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سرانجام دیے تھے۔اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے۔ حکومت محض اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
اس موقعے پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں جنگ کی صورتحال میں بھی ایک دن انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی۔ کیا آئین کہیں پر یہ مینڈیٹ دیتا ہےکہ اسمبلی تحلیل ہونےکے بعد اگلے سال انتخابات کرائے جائیں؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 2022 میں ایک حکومت ختم ہوگئی۔ سپریم کورٹ نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی تو ہونے ہی تھے۔ آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان کا کہنا تھا کہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیراعظم سے ملاقات کی۔کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو۔ ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پرآمادہ ہیں۔ بلاول بھٹو آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے۔ معاملات سلجھ گئے تو شاید انتخابات کے لیے اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے۔ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں۔ امیرجماعت اسلامی بھی شہبازشریف اور عمران خان سے ملے۔ فریقین نے مذاکرات کے لیےکمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے۔ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے۔ 14 مئی قریب آچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کےساتھ ہے۔ آئینی عمل آگے چلتا رہنا چاہیے۔ عید کی 5 چھٹیاں آرہی ہیں، یہ معاملہ مزید طویل نہیں ہونا چاہیے۔ عید کی 5 چھٹیاں بھی زیادہ معلوم ہو رہی تھی لیکن ساتھی ججز نےکہا کہ پرسکون ہونے کے لیے ضروری ہیں۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہو جائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی۔ یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔ انتخابات کے لیے 90 دن کی میعاد 14 اپریل کو گزر چکی۔ آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرانے لازم ہیں۔ آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے جس میں فیصلے عوام کرےگی۔ آپ کی تجویز ہےکہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ عدالت نے یقین دہانی کرانےکا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا تھا۔ حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے۔ ایک دن انتحابات کرانےکی درخواستوں پرسیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
عدالت نے تمام سیایسی جماعتوں کے رہنماوں کو نوٹسزجاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔