کپتان کی حکومت کو دو سال پورے ہوگئے ہیں وزیراعظم عمران خان اپنی تمام تر ایمانداری اور دلیری کے باوجود اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی ان سے امید کی جا رہی تھی۔ 22 سال تک وہ جہدوجہد کرتے رہے عام خیال ہی تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کا ایک مکمل جامع منصوبہ ہو گا اور پروفیشنل افراد کی ایک ٹیم انکے ساتھ ہو گی جو دو سالوں میں اس ملک کے مسائل حل کرنے کی راہ پر ڈال دے گی۔ عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو بہت سے سیاسی معاملات پر اس وقت کی حکومت پر کھل کر تنقید کیا کرے تھے۔ مگر اب خود وہی کام کر رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو بے شمار باتوں کا ادراک حکومت میں آکر ہوا ہے۔
عمران خان نے 1996 میں اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور پہلے الیکشن میں بالکل نئی اور غیر روایتی سیاسی ٹیم کے ساتھ حصہ لیا اور اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ ایک بھی سیٹ جتنے میں ناکام رہے۔ اسکے بعد 2002 کے الیکشن میں یہی عمل دوہرایا گیا صرف ایک سیٹ جتنے میں کامیاب رہے۔ ۔وہ مسلسل فوجی آمر پرویز مشرف پر تنقید کرتے رہے بلکہ فوج پر تنقیدی بیانات میں وہ حد سے بڑھ گئے 2008 کے الیکشن انکی جماعت نے حصہ نہیں لیا اس دوران وہ بہت ہی جارحانہ انداز میں جزب اختلاف کا کردار ادا کرتے رہے۔ اس دوران انکی طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ تعلقات استوار ہو گئے اور انہوں نے غیر روایتی سیاستدانوں کو چھوڑ کر روایتی سیاستدانوں کو اپنی جماعت میں شامل کر لیا۔
2013 میں انکو خبیر پختونخوا میں حکومت مل گی اور وہ اور انکے نزدیک تر ہوتی گے۔ ہیت مقتدرہ نے اپنے آزمودہ مہرے نواز شریف کی بحائے عمران خان پر دست شفقت رکھ دیا۔ یوں 2018 کے الیکشن میں وہ وزیراعظم بن گئے۔
انکی حکومت کو دو سال ہو گئے ہیں وہ ایک جرات اور بہادری کے علاوہ دیانت درای کے ساتھ بھی عوامی امنگوں پر ابھی تک پوار نہیں اتر سکے انکی اگر دو سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 20 کلو آٹے کا تھیلا 771 روپے سے 1010 تک ہو گیا ۔دودھ 85 روپے لیٹر سے 99 روپے لیٹر تک ہوا ۔مرغی کا گوشت 123 سے 195 تک گیا ۔گھی 150 سے 230 تک گیا آلو 33روپے سے 62 روپے تک گیا۔ ٹماٹر 68 سے 80 تک گئے۔ پیاز 42 سے 39 تک فی کلو ہوگئے ہیں۔اگست 2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر 16،4 ارب ڈالر تھے اب بڑھ کر 19اشاریہ 9 ارب ڈالر ہوں گہے ہیں ۔ ملکی ترسیلات 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں ۔عام آدمی کی فی کس آمدنی کم ہو کر 1355 ڈالر تک آگی ہے جو 1650 سالانہ سے کم ہوئی ہے۔ ۔زرعی شعبہ کو ٹدی دل کے باعث 800 ارب روپے کا نقصان ہوا تاہم اب اس قدرتی آفت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ دو سال قبل بجٹ خسارہ 2 ہزار 260 ارب جو 3 ہزار 444 ارب ہو گیا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 8 لاکھ جلعی افراد کا پتہ لگایا گیا۔ وزیراعظم پورٹل کی ایپ شروع کی گئی اور سستی بجلی اور ایل این جی کے معاہدے کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسکے ثمرات عوام کو ملیں گے۔ احساس پروگرام کے تحت پیدا ہونے والے نومولود بچوں کو دودھ کی مد میں 2000 ماہانہ دیا جائے گا۔ بے گھر افراد کے پناہ گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ مفت ملتا ہے۔ کرونا وئراس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈون پالسی پر کچھ حلقوں نے بہت تنقید کی مگر بھارت کی نسبت ہم نے بہت بہتر انداز میں وبا پر قابو پایا۔ وہاں اب تک پچاس ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں پاکستان میں صرف 6 ہزار ہلاکتیں ہوئیں ۔ابھی مزید تین سال اس حکومت کے پاس باقی ہیں انکو 25 روپے لیٹر پڑول کی قمیتوں میں اضافے جسے فیصلوں سے پرہیز کرنا ہو گا اور جیسے 75 روپے لیٹر تک لے کر گئے تھے وسیے ہی کرنا ہو گا۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔