خدا بھلا کرے سرحد پار کے میواڑی برادران کا جنہوں نے کسی دیوی کی شان میں ایک بھجن جاری کیا۔ دیکھتے دیکھتے اس بھجن کی دھوم نے سرحد کو پار کیا اور یہاں کی ایک انقلابی جماعت کے رہنماؤں کے دل موہ لیے۔ چھاپہ خانے میں اس کو فوری طور پر داخل کیا گیا اور جادوئی طرز پر وہی بھجن ایک ترانہ بن کر نکلا اور زبان زد خاص و عام ہوا۔
روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے، تبدیلی آئی رے
پھر کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک دھوم سی مچ گئی۔ لوگوں نے اس کو شب برات کے لڈووں کی طرح بانٹا۔ ٹوئٹوں میں ہر ٹوئٹ کے ساتھ ایسے نتھی کیا کہ بنا اس لنک کو کھولے بات نہ بنتی تھی۔ فیس بک کی دیواروں پر ایسے چسپاں کیا گیا، جیسے گئے زمانوں میں کراچی کی ہر دیوار پر کبھی "محبوب آپ کے قدموں میں۔ آج ہی رجوع کیجئیے۔ عامل سید دلبر زیدی" جا بجا تا حد نگاہ دکھائی دیتا تھا۔
انقلابی جماعت کے ایک رہنما نے بھی اس میں اپنی کمال تان سینی کے جوہر دکھائے اور یوں اس میں ہٹ ہونے کے ایک اور جز کو بھی شامل کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کے جنتر منتر میں کم سن نوجوان تو مسحور تھے ہی، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اہم سرکاری افسر جو عموما خاموشی کی زبان پر اکتفا فرمایا کرتے تھے، اپنے ایک خطاب میں اسی تبدیلی کی نوید سنا گئے۔
گویا الفریڈ ہچکوک کی قبر پر لات ماری گئی اور تجسس کو بالائے طاق رکھ کر قوم کو اس کے مستقبل کی جھلک دکھلا دی گئی۔ قوم بھی آخر کار جذباتی جو ٹھہری، یہ سوچ بیٹھی کہ ووٹ نامی پرچی کی بھی کوئی عزت نامی کوئی شے ہوا کرتی ہے اور پچیس جولائی سنہ 2018 میں اسی عزت کو منوانے کو نکل پڑی۔
خیر صاحب، ہزاروں سال بے چاری موتیے کی ماری نرگس، اپنی بے نوری پر روتی دھوتی کے ہاں تبدیلی کے پیامبر نے جنم لے ہی لیا۔ یہ اور بات ہے کہ عین وقت پر اس دیدہ ور کو جنم دینے کے لیے بے چاری نرگس کے پیٹ کو چاکنا پڑا اور جیسے تیسے کر کے دائیوں والے داؤ پیچ لڑا کر دیدہ ور کو اقتدار کی میز پر رکھ دیا گیا۔
زچگی کی تاریخ میں یہ زچگی ایک ریکارڈ زچگی ٹھہرائی جائے گی، کیونکہ اس طفل کو قریب 22 برس لگے، وہ صدائیں لگانے میں جسے سننے کے لیے ابو بے تاب تھے۔ ابو بے چارے بھی اب تنگ آچکے تھے۔ کتنی بار آگے آن کر، کار گلستان بہ نفس نفیس خود سنبھالا اور پھر یہ نا شکرے چمن والے ابو کو ہی مورد الزام ٹھہراتے تھے۔
اب کی بار ابو نے کہا بھائی بہت سہہ لیے اس نا شکری قوم کے طعنے۔ اب ہماری آرام کی عمر ہے۔ نوزائیدہ ہے تو کیا ہوا ہینڈسم تو ہے نا۔ سو یوں تبدیلی سرکار معرض وجود میں آئی اور اسٹئرنگ وہیل پر ہینڈسم نظر آتے دیدہ ور اور کنٹرول ابو کے پاس۔ جنہوں نے کبھی ڈرائیونگ سکول میں گاڑی چلانا سیکھی ہو وہ اس منظر سے بخوبی واقف ہیں۔ ابو نے بھی کہا کہ بس سلیمانی ٹوپی پہن لیتے ہیں، تاکہ ہم کنٹرول سنبھالے اس نا شکری قوم کو دکھائی نہ دیں۔جو لعن و طعن اور تشنیع کے تیر برسیں سب اسی بے چارے نوزائیدہ نونہال پر برسیں۔
واقعی میں عجیب قوم ہے یہ بھی جانتی ہے کہ کنٹرول ابو کے پاس ہے۔ مگر کوئی دن نہیں بیتتا کہ اپنی نا شکری کا اظہار بے چارے نوزائیدہ سیاسی دیدہ ور اور ان کے وزرا اور اکابرین پر نہیں کرتی۔ نکے میاں ہدف تنقید بنتے ہیں۔ ٹوئٹس کے تیر اور تبصروں کے گولے روز ان پر بے دریغ برسائے جاتے ہیں۔ روز اک نئی فریاد ہوتی ہے اور روز اک نئی شکایت۔
بے چارے نوزائیدہ ڈرائیور کی مجبوری سمجھیے۔ جو گاڑی چلا نہیں رہا بس چلاتے ہوئے نظر آرہا ہے کیسے سب کی زد میں ہے۔ فیصلے ابو کرتے ہیں اور یو ٹرن بھی ابو ہی کو لینے پڑتے ہیں اور بدنام بے چارہ ہمارا دیدہ ور اور اس کے گماشتے ہوتے ہیں۔ اب جن کا خیال ہے کہ یہ نااہل اور ناتجربہ کار ہیں، یہ کام ان کے بس کا نہیں۔ ان کے لیے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔ بھائی آپ یہ اپنی آزادی اظہار کو لگام دیجیے، کیونکہ ابو نے ایک لمبی پلاننگ کی ہے۔ جس کی رو سے یہ کھیل یوں ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ گاڑی بہت جلد نہ صرف چلے گی بلکہ دوڑے گی بھی۔ چند ایک بدخواہوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ ابو کا پتہ صاف کیا جائے۔ کنٹرول جب ابو کے پاس نہیں رہے گا تو گاڑی نے تو رکنا ہی رکنا ہے۔ اب یہ ٹھہرے کچی جماعت کے بچے جو ابو کو اس قدر ناتجربہ کار سمجھ بیٹھے تھے۔ کہنے کو انہوں نے ابو پر زور ڈالنے کے لیے ایک خوش کلام مولانا کو آگے کیا۔ موصوف آئے اور دارالحکومت میں مختصر قیام کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ مشہور ضرب المثل کی یاد دلا گئے۔
اب آگے اس مثال کو نامکمل رکھنے میں ہی شائد راقم کی عافیت ہے۔ کچھ خوش گمانوں کو ایک خوش گمانی ہو چلی ہے کہ ابو ہم کو بھی اس گاڑی کے اسٹئیرنگ وہیل پر بیٹھالیں گے۔ ہم بھی کچھ چکر لگاتے ہوئے اترائیں گے۔ دیکھیے ہم نے پچھلے ڈرائیور سے کہیں بہتر گاڑی چلائی۔ ارے ابو آپ تھکے تھکے سے لگتے ہیں کہیے تو آپ کا سر دبا دیں۔ جناب کے پاپوش مبارک کو چمکا دیں۔ جناب کے پاپوش مبارک کو نظر بد سے بچانے کے لیے کیوی اور چیری بلاسم کی ڈبیاں چھوڑ کنستروں کے انبار لگا دیں۔ مگر صاحب ابو پھر ابو ہیں۔ یہ سارے خوشامدی چونچلے ان پر نہیں چلنے والے۔ وقتاً فوقتاً وہ ان سب کو خوش رکھنے کو مارکیٹ میں نئی پھلجڑی متعارف کرواتے ہیں۔ تاکہ یہ سب اس پھلجڑی میں مصروف رہیں اور آس کے دیے جلاتے رہیں۔
بڑی مشکل سے معاملات کو ابو اس نہج تک لے کر آئے ہیں۔ ابو کیوں چاہیں گے کہ دوبارہ انہی "چور ڈاکو لٹیرے" ڈرائیوروں کے ہاتھ یہ گاڑی پھر آئے۔ اسی لیے تو عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اب اگر ان میں عقل ہوتی تو سمجھ جاتے اس ترانے کا اشارہ۔ جس تبدیلی کا اس ترانے میں ذکر ہے وہ یہی ناہنجار تو ہیں کہ جنہیں کمال خوبصورتی سے ہمیشہ کے لیے تبدیل کیا جا چکا ہے۔