اب جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر قیادت اور شریف خاندان کی جانب سے تصدیق کی جا رہی ہے کہ نواز شریف ستمبر کے تیسرے ہفتے میں وطن واپس آ جائیں گے اور عام انتخابات سے قبل انتخابی مہم کی قیادت کریں گے، بہت سے لوگ وطن واپسی پر نواز شریف کو درپیش قانونی چیلنجز کی بابت گفتگو کر رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق نواز شریف کی ستمبر کے وسط میں وطن واپسی دو حوالوں سے نہایت اہم ہے؛ ایک تو انتخابات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ممکنہ مداخلت کا خدشہ کمزور پڑ جائے گا اور دوسرا پاکستان مسلم لیگ ن میں ایک نیا ولولہ پیدا ہو جائے گا جس کے بعد نواز شریف ملکی معیشت سے متعلق بیانیہ اپنے ہاتھ میں لیں گے۔
تاہم، وطن واپسی پر ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس کے سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں سنائی جانے والی تاحیات نااہلی کی سزا کو بھی چیلنج کرنا ہوگا۔
قومی احتساب بیورو نے 2017 میں شریف فیملی کے خلاف تین مقدمات بنائے تھے جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کیس، دی فلیگ شپ انویسٹمنٹ کیس اور العزیزیہ سٹیل ملز کیس شامل ہیں۔ ان تین مقدمات کے علاوہ ان کی نااہلی بھی ہے جو سپریم کورٹ کی جانب سے جولائی 2017 میں کی گئی۔
قانونی طور پر نواز شریف اس وقت ایک مفرور ملزم ہیں جنہیں العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ان پر 1.2 ارب روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ العزیزیہ ریفرنس میں بھی نواز شریف پر ڈھائی کروڑ ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا۔
مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ نواز شریف کو اپیل کی بحالی کے لئے دوبارہ درخواست دینا ہوگی۔
2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعظم نذیر تارڑ کی درخواست پر نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔ اس کے بعد قومی احتساب بیورو نے کہا تھا کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئیے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے نواز شریف کو سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق مل گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں سنائی گئی سزاؤں سے انہیں تین سے چار سماعتوں کے اندر بریت مل سکتی ہے۔
تاہم وطن واپسی پر نواز شریف کو گرفتار کر لیا جائے گا کیونکہ 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں طبی بنیادوں پر محض 8 ہفتوں کی ضمانت دی تھی۔
سینیئر وکیل حافظ احسن کھوکھر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ اور احتساب عدالت نے آئین کے آرٹیکل 62 H اور F کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ قانونی اور آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل میں نااہلی کی مدت مقرر نہیں کی گئی اور یہ کام سپریم کورٹ کا نہیں کہ وہ غیر واضح مدت کو تاحیات نااہلی میں بدل سکے۔ نواز شریف کے لئے بہترین رستہ یہ ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جایا جائے لیکن یہ اب تک کیا نہیں گیا۔
احسن کھوکھر کا ماننا ہے کہ گو پارلیمنٹ نے حال ہی میں تاحیات نااہلی کے قانون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اسے 5 سال کی نااہلی میں تبدیل کر دیا ہے، مذکورہ ترمیم سے نواز شریف کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا، کیونکہ ایک تو یہ پرانے کیسز پر لاگو نہیں ہو گی اور دوسرا یہ ترمیم سپریم کورٹ کے تاحیات نااہلی والے فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ یہ فیصلہ تبھی تبدیل ہو سکتا ہے جب سپریم کورٹ خود نظرثانی کر کے اس سزا کو تاحیات سے کم کر کے 5 سال کر دے۔
کچھ قانونی ماہرین اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ میں ہونے والی حالیہ ترمیم کو اگر غیر قانونی قرار نہیں دیتی تو پھر اس ترمیم کے تحت نواز شریف کی نااہلی کی مدت 5 سال قرار پائے گی اور یہ مدت پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔
نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن سکیں گے یا نہیں، اس سوال کا جواب ان قانونی موشگافیوں میں موجود ہے جن کا سامنا نواز شریف کو وطن واپسی پر کرنا پڑے گا۔