چین اور امریکہ کی بیانیے کی جنگ میں پاکستانی میڈیا سینڈوچ بنے گا

چین اور امریکہ کی بیانیے کی جنگ میں پاکستانی میڈیا سینڈوچ بنے گا
پاکستانی میڈیا میں ایک نیا ٹرینڈ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ یکایک ملک کے دو بڑے چینلز پر دو بڑے اینکر حضرات کے درمیان پاکستان کے چین اور امریکہ سے متعلق تعلقات پر بحث شروع کر دی ہے۔ یہ اچانک کیسے شروع ہوا اور اس کے پیچھے کہانی کیا ہے، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن پہلے تو یہ جان لیجیے کہ واقعہ کیا ہے۔

کامران خان دنیا نیوز سے تعلق رکھتے ہیں۔ قریب چار دہائیوں سے صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں اور ملک میں نجی ٹی وی چینلز شروع ہوئے تو یہ کرنٹ افیئرز کے نام سے جیو نیوز پر بھی پروگرام کرنا شروع ہو گئے جس کا نام بعد ازاں آج کامران خان کے ساتھ ہی رکھ دیا گیا کیونکہ یہ اپنی سلاٹ میں ملک کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ پچھلے چند سالوں سے یہ دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور بیشک شاہزیب خانزادہ کے مقابلے میں ان کی مقبولیت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی اپنا ایک حلقۂ اثر رکھتے ہیں اور ان کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے ایک ویڈیو اپنے ٹوئٹر پر جاری کی جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ چین جو پاکستان کا قریب ترین دوست سمجھا جاتا ہے، یہ پاکستان کے انتہائی مشکل معاشی حالات میں اس کو قرض یا رقم فراہم کیوں نہیں کر رہا جب کہ امریکہ سے ہم نے تعلقات خراب کر لیے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں IMF اور FATF جیسے اداروں سے ریلیف ملنے کا امکان صفر ہو چکا ہے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی CPEC کے متعلق بھی اپنے نظریات کھل کر بیان کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو FATF کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، ہمیں IMF سے قرضہ نہیں مل رہا کیونکہ ہمارے سامنے جو شرائط رکھی جا رہی ہیں، وہ اس حد تک شرمناک ہیں کہ انہیں قبول کرنا ہمارے جیسی معیشت کے لئے بھی مشکل ہو رہا ہے۔ پھر ہمیں مجبوراً سعودی عرب کے پاس جانا پڑا اور انہوں نے ہمیں صرف رقم اپنے بینک میں رکھنے کے لئے دی مگر اس کے لئے بھی شرائط ایسی عائد کر دی ہیں کہ محض معاہدے کے سامنے آنے والے مندرجات دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان نے چین کے کہنے پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے بلائی گئی جمہوریت کی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا لیکن دوسری جانب چین ہے جو ہمیں اتنی شدید مشکلات میں دیکھ کر بھی نہ تو ہمیں کوئی مالی امداد دینے کو تیار ہے، نہ ہی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے کیے گئے معاہدوں میں کوئی رد و بدل کرنے کے لئے تیار ہے، اور سب سے اہم یہ کہ جو بجلی گھر ہم نے بنائے ہیں، ان کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے اور جب چین سے کہا جائے کہ ہم اس پر لیے قرض کی قسطیں نہیں دینا چاہتے تو چین اس پر بھی راضی نہیں۔ کامران خان نے یاد دلایا کہ پاکستان کی معیشت پوری طرح سے مغرب پر منحصر ہے۔ اگلے روز انہوں نے دنیا نیوز پر اپنے شو میں اچھا خاصہ لمبا پروگرام کیا جس میں انہوں نے خارجہ، دفاعی اور معاشی امور کے ماہرین کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے بھی بات کی۔ اس میں بھی انہوں نے یہ نکات بارہا اٹھائے اور شرکا کی چین سے متعلق کسی اچھی رائے کو خاطر میں نہ لائے۔

جیو نیوز پر جواباً شاہزیب خانزادہ کی جانب سے بھی وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے CPEC خالد منصور کا ایک انٹڑویو کیا ہے جس میں انہوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جو ناصرف چند روز سے کامران خان لگا رہے تھے بلکہ ان الزامات کو بھی رد کر دیا ہے جو پچھلے سات سال سے وزیر اعظم عمران خان خود اور ان کے آدھ درجن کے قریب وزرا اور ترجمان لگاتے چلے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اس الزام کو رد کیا کہ CPEC کے تحت بننے والی سڑکیں اور بجلی گھر مہنگے داموں بنے کیونکہ ان میں نواز شریف حکومت دور میں کک بیکس لیے گئے تھے۔ خالد منصور کا کہنا تھا کہ یہ تمام منصوبے شفاف تھے۔ گذشتہ برس وزیر اعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ CPEC کے منصوبوں میں اب نظر آ رہا ہے کہ ان میں بڑی کک بیکس لی گئی ہیں، پیسے بنے ہیں ان کے اندر اور معاہدے پاکستانی عوام کی بجائے دوسروں کے حق میں کیے گئے ہیں کیونکہ ان سے پیسے لیے گئے تھے۔ خالد منصور نے لیکن کہا کہ یہ منصوبے ایک پالیسی کے تحت لگے، پالیسی میں ریاستی سطح پر قوانین بہت طریقے سے بنائے گئے ہیں اور پالیسی میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا تھا، اس کی پیروی کرتے ہوئے ہی یہ سرمایہ کاری آئی ہے۔ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کرنے کا الزام بھی انہوں نے رد کیا۔ یہ الزام حماد اظہر کی جانب سے پریس کانفرنس میں کئی بار لگایا، فواد چودھری نے بھی لگایا۔ خالد منصور کا لیکن کہنا تھا کہ اگر آپ نے صنعت کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنی ہے تو جتنے بجلی کے منصوبے لگائے گئے ہیں اتنے ضروری ہیں۔ دنیا کے جتنے بھی ممالک بلاتعطل بجلی فراہم کر سکے ہیں، وہاں بجلی پیدا کرنے کی استعداد 30 سے 35 فیصد زیادہ ہی ہوتی ہے۔

خالد منصور نے کہا کہ اس طرح کے الزامات چینی سرمایہ کاروں کو بھی پریشان کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میڈیا میں اس طرح کے الزامات سے بے دلی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں بھی انہوں نے حکومتی بیانیے کی نفی کی۔ لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کامران خان جو بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں، اس کی بھی نفی کی۔

اب آتے ہیں کہ یہ بحث اچانک شروع کیسے ہو گئی۔ ایک بات تو طے ہے کہ امریکہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم واپس اس کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر ملک میں ایک نیا بیانیہ بھی دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کامران خان اسی لئے یکایک اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب جیو نیوز کی جانب سے اس مشن کا اگلے ہی دن مکو ٹھپ دینے کی حد تک طاقتور انٹرویو اس بات کا غماز ہے کہ چین کے خلاف بیانیہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس میں مبالغہ آرائی بھی خوب ہے۔ خصوصاً مبالغہ آرائی ہی بلکہ اس بیانیے کو پنکچر کرنے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوگی۔

بائیڈن کے ڈیموکریسی سمٹ میں 140 ممالک کی شمولیت یہ واضح کر چکی ہے کہ اب دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس لڑائی میں پاکستان کو بھی کھینچا تانی کا شکار ہونا ہوگا اور یہاں امریکہ اور چین اپنا اپنا اثر و رسوخ پوری قوت سے لگائیں گے۔ آنے والے دنوں میں لہٰذا اس قسم کے مباحث شاید پاکستانی عوام کو ٹیلی وژن پر تواتر سے دیکھنے کو ملیں۔ کیونکہ بیانیے کو میڈیا میں ہی بنایا جائے گا اور اس کا توڑ کر کے مخالف بیانیہ بھی میڈیا کے ذریعے ہی عوام میں پھیلانے کی کوششیں ہوں گی۔ یہ محض پہلی قسط تھی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.