سینیٹ الیکشن پر صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ میں رضا ربانی اور بینچ کے درمیان مکالمہ

سینیٹ الیکشن پر صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ میں رضا ربانی اور بینچ کے درمیان مکالمہ
 

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے درمیان مکالمہ ہوا۔

رضا ربانی نے کہا کہ عام تاثر ہے رکن پارلیمنٹ اچھا وکیل نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے رضا ربانی کو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں ہے، آپ اچھے وکیل ہیں، آپ تو 1994 سے سینٹ کے ممبر ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ دلائل کا آغاز سینیٹ کو تخلیق کرنے کا مقصد کیا ہے اس سے کروں گا، سینیٹ کو تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد فیڈرل ازم ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات میں سے 14واں نکتہ فیڈرل ازم کا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ کو قائم کرنے کا مقصد گھٹن کے ماحول کو ختم کر کے متناسب نمائندگی دینا ہے، ایسی چھوٹی سیاسی جماعتیں جن کی چار صوبائی نشستیں ہوتی ہیں انہیں بھی سینیٹ میں نمائندگی ملتی ہے، چھوٹی سیاسی جماعتوں کو وفاق میں اپنی بات کرنے کا موقع دینے کے لیے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کا تصور دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں تین یا چار اراکین کے باوجود دو سینیٹرز موجود ہیں، آپ سینیٹ کی تشکیل اور مقصدیت کو سامنے رکھیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت قومی اسمبلی میں ہوتی ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ میں وفاق، پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے، ہاؤس آف لارڈ اور ہاؤس آف کامن میں بھی تنازع دیکھا جا سکتا ہے، ہاؤس آف کامن کے پاس عوامی نمائندگی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسئلے کا حل آئین میں دیکھنا چاہیے، قومی اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد بھی سینیٹ اسے مسترد کر سکتا ہے، سینیٹ کو بل پر 90 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں نمائندگی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے تناسب سے ہوتی ہے، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کی صوبے میں بھی حکومت ہو، وفاق میں کسی اپوزیشن جماعت کی صوبے میں حکومت ہو سکتی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے سوال پوچھا ہے کہ خفیہ ووٹنگ کا اطلاق سینٹ پر ہوتا ہے یا نہیں، حکومت نے ایسا تاثر دیا ہے کہ جیسے مقدمہ 184/3 کے دائرہ اختیار کا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے، جو خود کو الگ سمجھتے تھے انہیں نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ قائم ہوئی، پارلیمانی نظام میں دونوں ایوان کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی عوام اور سینیٹ وفاقی اکائیوں کی نمائندہ ہے، دونوں ایوانوں میں اختلاف رائے نہ ہونا غیر فطری ہو گا، لازمی نہیں کہ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کی صوبے میں بھی اکثریت ہو۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے، متناسب نمائندگی کے نقطے پر تفصیلی مؤقف دوں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 59 دونوں میں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔

رضا ربانی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 51 کے تحت متناسب نمائندگی مخصوص نشستوں پر پارٹی لسٹ کے مطابق ہوتی ہے، آرٹیکل 59 میں متناسب نمائندگی سینیٹ میں ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے، سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کئی بار سیاسی جماعتیں دوسرے صوبے کی جماعتوں سے بھی ایڈجسمنٹ کرتی ہیں لیکن اگر بین الصوبائی اتحاد بھی ہو تو ووٹ خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟

رضا ربانی نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے، سیاسی اتحاد عام طور پر خفیہ ہی ہوتا ہے البتہ اگر کوئی انفرادی شخص سینیٹ ممبر بننا چاہے تو ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کی عددی تعداد کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے، ووٹ سیکرٹ رکھنے کے پیچھے کیا منطق تھی؟

رضا ربانی نے کہا کہ شاید ووٹ سیکرٹ اس وجہ سے رکھا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کا صحیح تناسب نہ آ سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی جماعت کے صوبائی اسمبلی میں دو اراکین ہوں تو وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد قائم کر سکتی ہے، آپ ہمیں متناسب نمائندگی سے متعلق بتا دیں، آپ انفرادی حیثیت میں لارجر بینچ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ ہمیں آئین سازوں کے دماغ کو سمجھنا ہو گا، سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی قانون سازوں کے ذہن میں تھی، متناسب نمائندگی کے نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام موجود ہیں، ہر آرٹیکل میں الگ نظام سے متعلق بتایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں پارٹی نمائندگی کا کہا گیا ہے وہیں سنگل قابلِ انتقال ووٹ کا بھی کہا گیا ہے، سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کو بھی مین اسٹریم نمائندگی کا حق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کے خلاف جائے، اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہو سکتی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ نظام جو بھی اپنایا جائے سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے، 1973 کا آئینِ پاکستان بنتے وقت وزیر قانون نے کہا تھا کہ صوبائی نشستوں کی سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔

رضا ربانی اس پر کہا کہ اگر اس اصول پر سختی سے عمل کرنا ہے تو پھر پارٹی لسٹ ہونی چاہیے تھی، پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) اتحادی ہیں، تحریک انصاف چار یا پانچ سینیٹر میں سے ایک سینیٹر مسلم لگی (ق) کو دے رہی ہے، کیا تحریک انصاف کے ایک سینیٹر کم ہونے سے متناسب نمائندگی کی عکاسی ہو گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس دلیل کو دوسرے انداز سے بھی بیان کر سکتے ہیں، اکثریتی جماعت دوسری اتحادی جماعت سے صوبے میں سیٹ کا تبادلہ کر سکتی ہے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا پنجاب میں ابھرتا ہوا اتحاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس پر مزید بات نہیں کرسکتا، سوال یہ ہے کہ پھر اتحاد کی صورت میں سینیٹ کا ووٹ کیوں خفیہ ہوتا ہے۔

رضا ربانی نے جواب دیا کہ سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہوتا لیکن اگر انفرادی ووٹر چاہے تو اپنا ووٹ خفیہ رکھ سکتا ہے۔ مزید دلائل پیر کو دوں گا۔