سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ آئین کی محافظ یا پارلیمان کی سوتن؟

سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ آئین کی محافظ یا پارلیمان کی سوتن؟
پاکستان تحریکِ انصاف حکومت اس وقت بے شمار قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک طرف تو معیشت کا پہیہ ہے کہ کسی صورت گھوم کر نہیں دے رہا، قرضے پر قرضہ چڑھا جاتا ہے اور مہنگائی ساتویں آسمان سے باتیں کرتی ہے مگر عوام کو دکھانے کو کچھ نہیں۔ اوپر سے PDM کی جماعتیں بڑی بڑی باتیں کرنے کے بعد ٹھنڈی ہوتی دکھائی دیتی تھیں لیکن اب انہوں نے 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ نجم سیٹھی کے مطابق فوج میں عنقریب ہونے والی کچھ تقرریاں اور تبادلے بھی عمران خان کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جب سینیٹ انتخابات میں اطلاعات ہوں کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی کوئی دھچکا لگنے والا ہے تو عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس سے تو نمٹا جائے۔

لہٰذا انہوں نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لئے ایک صدارتی ریفرنس دائر کر دیا۔ اپوزیشن کو توقع تھی کہ اسے سپریم کورٹ اٹھا کر باہر پھینکے گی لیکن بنچ ہی کچھ ایسا بنا کہ یہ تو ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پھر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی تو بھی اپوزیشن کو لگا کہ اب تو سپریم کورٹ کو غصہ آ ہی جائے گا۔ لیکن بنچ نے پھر بھی غصہ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ الٹا سینیٹر رضا ربانی سے پوچھا کہ آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ اب رضا ربانی صاحب دو دن لگا کر پتہ کرنے گئے کہ مسئلہ کیا ہے تو پیچھے سے ایک ویڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں خیبر پختونخوا کے کچھ صوبائی اسمبلی کے اراکین کو کسی سے پیسے لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ویڈیو تو تین سال پرانی ہے اور عمران خان ماضی میں اعلان بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے یہ ویڈیو دیکھ رکھی ہے لیکن یہ ویڈیو اچانک ایک ایسے موقع پر لیک ہو گئی کہ جب صبح رضا ربانی صاحب نے عدالت کو اپنا جواب جمع کروانا تھا۔

اسے عدالت چاہے تو عدالت پر اثر انداز ہونے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ سکتی تھی۔ یا پھر یہاں بھی یہ فیصلہ کیا جا سکتا تھا کہ بس ہم نیت کو دیکھیں گے کہ حکومت ایسا چاہتی کیوں ہے۔ رضا ربانی بتائیں کہ وہ ایسا کیوں نہیں چاہتے؟ ان کی نیت ٹھیک نہیں؟ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق عدالت کے سامنے یہ سوال نہیں ہے کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات ہونے چاہئیں یا خفیہ ووٹنگ کے ذریعے۔ ان کے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ کیا آئین میں اوپن بیلٹ کی گنجائش ہے یا نہیں۔ یہاں انہیں فیصلہ محض اتنا ہی کرنا ہے، اس سے آگے کچھ بھی کیا جائے گا تو وہ اپنے پلے سے چھ مہینے دینے جیسا ہی کچھ معاملہ ہوگا۔

مگر سوال دراصل یہاں یہ ہے کہ PTI کیوں چاہتی ہے کہ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ ظاہر ہے کہ عمران خان کا یہ خوف ہے کہ ان کے ممبران سینیٹ الیکشن میں ان کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ انہیں ایسا دو وجوہات کی بنا پر لگتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے ساتھ 2018 میں ایسا ہو چکا ہے کہ جب خیبر پختونخوا سے 6 اراکین رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی جس کا حجم کے حساب سے ایک بھی سینیٹر نہیں بنتا تھا، اس صوبے سے دو سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

دوسری طرف کچھ اطلاعات ہیں جو عمران خان کی راتوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ سندھ میں پارٹی میں موجود اختلافات کو استعمال کر کے پاکستان پیپلز پارٹی شاید ان کے حصے کے تمام ہی سینیٹرز لے اڑے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پنجاب میں جہانگیر ترین کا گروپ پیپلز پارٹی کو اور پیپلز پارٹی علی ترین کو سپورٹ کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو PTI کو اپنے جثے سے کہیں کم سیٹیں میسر آئیں گی۔

عمران خان صاحب کو یہ بھی علم ہے کہ ان کی کوئی پارٹی نے تو الیکشن جیتا ہے نہیں۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ آدھے سے زیادہ لوگ تو آزاد تھے یا آخری چند روز میں PTI میں شامل ہوئے۔ انہی میں سے ایک جنوبی پنجاب محاذ بھی تھا جس کے تمام اراکین یکایک پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور جیت گئے۔ ایسے ہی ایک صاحب عثمان بزدار بھی ہیں۔ لہٰذا پارلیمنٹ میں PTI کے نظریاتی اراکین کی شدید قلت ہے۔ پیسہ چلے یا نہ چلے، سینیٹ انتخابات میں چند گروپس عمران خان کے من پسند سینیٹرز منتخب ہونے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے لہٰذا خان صاحب نے اوپن بیلٹ کا طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسے وہ پارلیمان کی بجائے عدالت لے گئے ہیں کیونکہ پارلیمان میں کوئی ان سے اب بات کرنے کو تیار نہیں۔

یہ درست ہے کہ PDM کی دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی تو پہلے ہی میثاقِ جمہوریت میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے پر اتفاق کر چکی ہیں۔ لیکن PTI کو میثاقِ جمہوریت میں سے یہ شق ہی کیوں پسند آئی اور وہ بھی اب ہی کیوں؟ جب 2018 میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی ایک سیٹ PTI کے چودھری سرور کو مل گئی تھی، تب اسے یہ احساس کیوں نہ ہوا؟ سینیٹ میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے وقت ووٹنگ کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟

PDM کے 4 فروری کے اجلاس میں سنا ہے کہ پیپلز پارٹی سے پوچھا گیا کہ آپ تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لئے اتنے پرجوش ہیں، نمبرز تو دکھائیے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹ انتخابات میں ہم آپ کو اسلام آباد سے سینیٹرز منتخب کروا کے دکھا دیں جن کا کہ الیکٹورل کالج ہی قومی اسمبلی ہے، تو تحریکِ عدم اعتماد کے لئے نمبرز تو واضح ہو جائیں گے۔

یہی وہ خوف ہے جو عمران خان صاحب کو دن رات ستا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس مرحلے کو پار کر جائیں۔ لیکن اس وقت ان کا گھبرانا بنتا ہے۔ شبلی فراز شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بیٹھ کر کہہ رہے تھے کہ ان کا لیڈر جہاد کر رہا ہے۔ گذارش بس اتنی کرنا تھی کہ یہ جہاد وغیرہ جیسے مقدس الفاظ کو اپنے سیاسی مفادات کی گندی جنگ میں لا کر ان کو بے توقیر نہ کیجئے۔ سینیٹ انتخابات میں پیسہ اور رشوت کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا رستہ پارلیمان سے نکلتا ہے، عدالت سے نہیں۔ عمران خان سپریم کورٹ کو ایک غیر آئینی اقدام کی حمایت کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اب امتحان سپریم کورٹ کا ہے کہ وہ آئین کی محافظ بن کر سامنے آتی ہے، یا پھر اس معاملے کو پارلیمان پر اپنی افضلیت ثابت کرنے کے ایک اور موقع کے طور پر دیکھتی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.