حکومت کا چلنا نہ چلنا اپنی جگہ لیکن فیصل واوڈا اور ان جیسے دیگر حکومتی ارکان آئے دن شغل فرماتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ اب سے چند دن پہلے فیصل واوڈا نے كاشف عباسی کے پروگرام میں اچانک سے اپنی کرسی کے ساتھ پڑے ایک لفافے سے ایک فوجی بوٹ نکالا اور انتہائی غصے سے میز پہ دے مارا۔ ساتھ ہی شو کے دیگر مہمان ساتھی قمرزمان قائرہ اور جاوید عباسی کو طعنہ مارا کہ اپنے گناہ دھلوانے کے لیے انہوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے تعاون کیا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ فیصل واوڈا نے سرعام کوئی گھناؤنی حرکت کی ہو۔ اس سے پہلے جب کراچی میں چائنیز سفارتخانے پر حملہ ہوا تھا وہ بندوق کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ ایک ٹاک شو میں خان صاحب کا دفاع کرتے کرتے کچھ ایسا کہہ بیٹھے کہ اگر کوئی عام سا آدمی کہتا تو اس پہ توہینِ رسالت کا الزام لگ جاتا۔ نتیجتاً وہ ایک دو ماہ کے لئے منظرِعام سے غائب ہو گئے۔ لیکن انہوں نے اس دوران کچھ نہیں سیکھا۔
اس بوٹ والی حرکت سے گو ان کا ارادہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو شرمندہ کرنا تھا لیکن ان کا یہ وار انہی پہ واپس آن پڑا اور چند دن سے شرمندگی ان کا پیچھا کر رہی ہے لیکن واوڈا صاحب ہیں کہ شرمندہ ہی نہیں ہو رہے۔
جب بھی کبھی کوئی سیاستدان کسی عمل کا ذمہ دار فوج کو ٹھہراتا تھا تو یکدم آئی- ایس- پی- آر سے تردید آ جاتی تھی۔ جنرل آصف غفور نے کئی مرتبہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ فوج کو ہر معاملے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اب اس بات میں بھی کوئی شک تو نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومتی عمل فوج کی مداخلت سے خالی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود فوج کبھی یہ نہیں چاہتی کہ لوگ ایسا سوچیں اور اس بارے میں باتیں کریں۔ فیصل واوڈا نے بوٹ میز پر رکھ کر سارے کے سارے آئی-ایس-پی-آر اور ان مبصرین کی محنت پہ پانی پھیر دیا کہ جو لوگوں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فوج کا سیاست اور ریاستی معاملات میں عمل دخل محض افسانہ ہے۔
فیصل واوڈا، نعیم الحق، زلفی بخاری، مراد سعید، زرتاج گل اور ان جیسے چند دیگر حکومتی عہدہ دار خان صاحب کے لاڈلے ہیں۔ اسی طرح وزیرِ داخلہ بریگیڈئر اعجاز شاہ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، بیرسٹر فرغ نسیم اور ان سے ملتے جلتے چند سیاستدان بگ باس کے لاڈلے ہیں۔
بظاہر خان صاحب کے ساتھ بگ باس کی یہی ڈیل ہوئی تھی کہ کچھ ہمارے بندے اور کچھ آپ کے۔ اگر آپ غور فرمائیں تو آپ دیکھیں گے کہ جب بھی وزارتوں میں تبدیلی کی کہانیاں جنم لیتی ہیں تو یہ سب منسٹر جن کا میں نے اوپر ذکر کیا اپنی جگہ پہ ہوتے ہیں لیکن باقی سب کو گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر یہی ہوتا ہے لیکن یہ چند مخصوص لوگ وہیں پائے جاتے ہیں۔
اسی لیے مجھے نہیں لگتا کہ فیصل واوڈا کو خان صاحب کوئی معمولی سی بھی سزا دیں گے۔ بلکہ مجھے بلکل بھی حیرانگی نہیں ہو گی اگر کچھ سالوں بعد یہ پتا چلا کہ بےعزتی کے بجائے خان صاحب نے اس بوٹ والی حرکت پہ فیصل واوڈا کو شاباش دی۔ کیونکہ ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ واوڈا صاحب نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی توہین کی ہے۔ جبکہ لگ ایسے رہا تھا کہ فیصل واوڈا ان کی آڑ میں بوٹ ہی کی توہین کر رہے ہیں۔ ان کے اس عمل میں چھپا ہوا غصہ جیسے بوٹ سے کہہ رہا ہو کہ آخر ان جماعتوں سے ہی دوستی کرنی تھی تو ہم سے وفا کیوں کی۔
اگر یوں کہا جائے کہ تحریک انصاف میں کہیں نہ کہیں ان نئی محبتوں کو لے کے آزردگی موجود ضرور ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ لیکن کسی بھی عاشق کی طرح تحریک انصاف بھی بے جا ردعمل کا اظہار کر رہی ہے۔ وہ ان حالات کو نہیں سمجھ رہی جن کی وجہ سے بگ باس نے عارضی طور پر سیاسی جماعتوں سے بظاہر سمجھوتا کر لیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے یہ پھسوڑی نا ڈالی ہوتی تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
تحریک انصاف یہ بھی نہیں سمجھ پا رہی کہ بگ باس کوئی اس کے خالہ زاد بھائی تو نہیں ہیں کہ ساری عمر نبھائیں گے۔ حکومت کی کارکردگی نے بھی بگ باس کو اپوزیشن سے ہیلو ہائے پر مجبور کیا ہے۔ گو کہ تحریک انصاف کی بری کارکردگی کی وجہ میں ذاتی طور پر صرف اور صرف تحریک انصاف کو نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ بظاہر لگتا ایسے ہے کہ خان صاحب اور بگ باس میں 50:50 کا معاہدہ ہوا تھا۔
یعنی آدھے عہدہ داران تحریک انصاف کے وفادار اور آدھے بگ باس کے۔ یہ فارمولا بری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اس میں چاہے جتنے بھی مزید تجربات کر لئے جائیں نتیجہ وہی نکلے گا۔
فیصل واوڈا نے جو کیا وہ اپنی جگہ لیکن پہلے سب کو کاشف عباسی سے اس بات سے گلہ تھا کہ وہ بوٹ رکھے جانے کے بعد مسکراتے کیوں رہے اور اب جب پیمرا نے دو ماہ کے لیے ان کا پروگرام بند کر دیا ہے تو اب بھی اکثریت کا گلا ہے کہ کاشف عباسی کو تو سزا مل گئی لیکن واوڈا کو کچھ نہیں کہا گیا۔ اس پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ پیمرا نے تو اپنا اختیار استعمال کر کے ایک ٹی وی اینکر کو سزا دے دی مگر فیصل واوڈا تو ایک سیاستدان ہیں۔
ایک سیاستدان کو سزا و جزا اس کی پارٹی سے ملتی ہے اور اوپر دی گئی وجوہات کی بنا پر مجھے نہیں لگتا کہ فیصل واوڈا کو کوئی سزا ملے گی۔ اور اگر کبھی سزا ملی تو وہ اسی بوٹ کے کہنے پر ملے گی جس کو انتہائی گھناونے طریقے سے فیصل واڈا نے میز پہ رکھا۔