خدا کی تخلیق کردہ ایک ایسی مخلوق جسے اس معاشرے نے باعثِ شرمندگی سے نوازا ہے جن کا پیدا ہونا رحمت نہیں زحمت ہوتا ہے۔ جسے عزت دینے کے لیے اپنے دوسرے رشتوں میں کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ ہے بھی اوروں کی طرح مٹی سے بنائے جانے والے ہیں۔
خواجہ سراء اللّٰہ کی ایسی پیداوار ہیں جنہیں کسی کا محتاج ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان میں اللّٰہ نے بہت سی صلاحیت رکھی ہیں۔ انہیں ایک بار ٹھکرایا جائے تو ان کا ظرف پھر کبھی بھی اس در سے عزت اور تحفظ کی بھیک نہیں مانگتا۔ ہم جیسی غیور اور غیرت مند عوام انہیں گلی سڑکوں پر خوار ہوتے دیکھ کے مذاق اڑانے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتی۔ انسانیت سے دور کہیں ہم بھی چپ چاپ اس نامکمل شخصیات کی تزلیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن ﺟﻮ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﮯ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ آئی ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ کوئی ﻗﺼﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ، ﺍﻧﮑﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻃﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ۔ چونکہ ہمارے لیے غیرت کے تقاضے بہت اونچے ہیں۔
خواجہ سراؤں کی زندگی ہر موڑ پر داؤ پر ہوتی ہے کہ جب وہ جسم فروشی اور ناچ گانے کے لیے تیار نا ہو تو اس کی روح کو نوچ کے اس کے جسم کو لہو لہان کر کے عبرت کا نشان بنانا مردانگی کا ثبوت ہے۔ جب کبھی باپ اور بھائی کی غیرت جاگے تو اس نا مکمل شخصیت کی پہچان چھیننا سرخرو ہونے کی علامت ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے ایسے کیسز موجود ہیں جنہیں دیکھ کر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
اسے ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮئے ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺑﻮجھ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻋﺮﻑ ﻋﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮨﺠﮍﺍ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺧﺎﺭ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺫﺍﺕ ﺑﻘﻮﻝ ﺁﭘﮑﮯ (ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﺎﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﮯ۔) ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ گی۔ آپکا میڈیا اور عظیم لیڈران ایوانوں میں کھڑے ہو کے نظریں چراتے ہیں، آپ ایسے لوگوں کو موقع ہی کیوں دیتے ہیں گریبان سے کیوں نہیں پکڑتے؟ ﺍﻭﺭ ﮐچھ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ کوئی ﺍﺩﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﻣﺖ بنائیں۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﮧ ﭼﮭﯿﻨیں۔ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺟﺐ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ، ﺷﺎﮨﺮﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ذﻟﯿﻞ ﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ ، ﮐچھ ﺩﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ تو ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮨﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺰﺕ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﻖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔
ہمارے اپنے ملک کے بہت سے خواجہ سراؤں نے اپنی حق کے لیے آواز اٹھائی اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ جن میں پاکستان کی پہلی خواجہ سراء نیوز اینکر 21 سال کی مارویہ ملک ہیں جو کہ اپنی کمیونٹی کے لیے ایک اعزاز اور مثال کے طور ثابت ہوئی ہیں۔
لیلا علی جسے پہلی بار ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا گیا۔ ماڈلنگ سے لیکر الیکشن لڑنے تک ہم نے ان کو سرِ فہرست پایا ہے۔
2011ء میں رائیٹ ٹو ووٹ اور فروری 2018 میں سینیٹ کمیٹی نے خواجہ سراؤں کو خاندانی وراثت کا وارث ہونے کا بھی حق دیا۔ ملک کی مردم شُماری کا حصہ بھی بنایا گیا۔
مردم شُماری 2017 کے مطابق پاکستان میں 10،000، 0.005 ٪ خواجہ سراء آباد ہیں جو کہ کافی زیادہ تعداد نہیں ہے کہ ان کے حقوق پورے کرنے میں مشکلات درپیش ہوں۔ ضرورت ہے تو بس وسیع سوچ اور نیت کی۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺨﺮ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﻣاؤﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺟﻨﺲ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﺎﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﺐ ﭘﺮ ﻓﺨﺮ ﮨﮯ۔