Get Alerts

پنجاب یونیورسٹی کی ’تھیسز موومنٹ‘ اور طلبہ کے مسائل کا حل

پنجاب یونیورسٹی کی ’تھیسز موومنٹ‘ اور طلبہ کے مسائل کا حل
میں نے چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم اے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس ڈگری کے بعد زندگی کی حقیقی ڈگر پر چلنے کے قابل ہوا اور یہیں سے اپنے مستقبل کے سفر کا تعین کیا۔

ایم اے سیاسیات کے دو سالوں کے دوران ہم نے یونیورسٹی  میں بے پناہ مسائل دیکھے مگر خاموش رہے، اس دوران طلبہ پر ایک تنظیم کا جسمانی اور انتظامیہ کا ذہنی تشدد بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر خاموش رہے کیونکہ ہم دیگر طالب علموں کا دکھ سمجھنے سے قاصرتھے مگر احساس تب ہی ہوا جب اس نظام کی ستم ظریفیاں خود پر عیاں ہوئیں۔

ایم اے پولیٹیکل سائنس کے سالانہ امتحانات کی وجہ سے ہم (ریگولر) اور پرائیویٹ طلبہ میں فرق نہ تھا۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں یہ بات مشہور تھی کہ ’پورا سال عیاشی کرو اور آخری ایک مہینہ پڑھ لو پاس ہو جاؤ گے‘۔ پہلے سال تو اس بات کا ادراک ہی نہ ہو سکا کہ اس رویے سے ہمارا کس قدر تعلیمی استحصال ہو رہا ہے تاہم سال دوم کے وسط میں اس بات کا شدید احساس ہوا جب طلبہ کو تھیسز الاٹ کئے جانے کا وقت آن پہنچا۔

سالانہ امتحانات میں تفصیلی سوالات کے باعث طالب علم بمشکل ایک پرچے میں 70 نمبر ہی لے پاتے تھے البتہ سال دوم میں دو پرچوں کی جگہ تھیسز رکھنے کا آپشن بھی تھا مگر وہ صرف سال اول کے بہترین 5 طلبہ کو الاٹ کئے جاتے تھے۔ گویا صرف وہ 5  لوگ دو پرچوں کی جگہ 200 نمبر کے تھیسز میں باآسانی 170 سے زائد نمبر حاصل کر سکتے تھے جبکہ دیگر تمام طلبہ بہترین پرچے دے کر بھی 200 میں سے  بمشکل 140 لے سکتے تھے۔ علاوہ ازیں ہم سب کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ اگر طلبہ ایم اے لیول پر بھی تھیسز یا ریسرچ نہ سیکھ پائیں تو کب سیکھ پائیں گے؟

ہماری کلاس کا خاصہ تھا کہ ہم ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوئے تھے اور کلاس کے اندر تمام مسائل کی نشاندہی کر کے مشترکہ فیصلوں سے ان کا حل تلاش کر لیتے تھے۔ لہذا یہاں بھی ہم نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جانبدرارانہ اصول کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں ان طلبہ کا کردار قابل ستائش تھا جو سال اول کے ٹاپرز تھے یا جن کو باآسانی تھیسز مل سکتا تھا مگر انہوں نے انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی۔ یوں ہماری پوری کلاس نے فیصلہ کیا کہ اگر تھیسز ملے گا تو سب کو وگرنہ کوئی بھی تھیسز نہیں لے گا۔

پہلی کڑی میں اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے ہم نے اپنے کوارڈینیٹر سے بات کی تو انہوں نے ہمارے اس مطالبے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ’ایسا ممکن ہی نہیں، نا ہی ماضی میں ایسا کبھی ہوا ہے ، نہ ہی یونیورسٹی قوانین ہمیں اجازت دیتے ہیں اورنہ ہی ایسا کبھی ہو سکتا ہے تاہم ڈیپارٹمنٹ ریسرچ کا ایک ٹیسٹ لے گا جو پاس کرے گا اسے تھیسز دے دیا جائیگا۔‘

اب یہاں بھی مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں ریسرچ پڑھائی ہی نہیں گئی تھی جس کی بنیاد پر ہم سے ٹیسٹ لیا جارہا تھا۔

بہر حال پورے ڈیپارٹمنٹ میں سال دوم کے طلبہ کو مقررہ تاریخ کو ٹیسٹ کے لئے بلایا گیا۔ ان میں ایم اے (انٹر نیشنل ریلیشنز) ایم اے (ڈپلوسی میسی) کے طلبہ بھی ٹیسٹ دینے پہنچے۔ دوسری جانب ہماری ( ایم اے سیاسیات) کی واحد پوری کلاس نے ٹیسٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا۔

ہماری کلاس کا ایک بھی طالب علم یا طالبہ ٹیسٹ دینے نہ گیا۔ ٹیسٹ نہ دینے کی بنا پر ہمارے گھروں میں والدین کو کالز کی گئیں، متحرک طلبہ کو داخلہ منسوخ کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں اورانتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے تمام طلبہ کو انفرادی طور پر رابطہ بھی کیا گیا مگر ہم ڈٹے رہے اور ہم سب نے مشترکہ طور پر یہی جواب دیا کہ ’ہمیں ریسرچ نہیں پڑھائی گئی تو ہم کس چیز کا ٹیسٹ دیں؟‘

ایک طالب علم (جس کا نام محسن تعبیر خان تھا) کا پہلے داخلہ منسوخ کیا جاچکا تھا اسے ڈیپارٹمنٹ انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے دفتر بلایا گیا، اسے لالچ دیا گیا اور کہا گیا کہ تم اکیلے ٹیسٹ دو تمہیں دوبارہ داخلہ بھی دیا جائیگا اور ساتھ ہی ساتھ تھیسز بھی الاٹ کر دیا جائیگا۔ اس وقت اس طالب علم نے اساتذہ کو مخاطب ہو کر کہا کہ ’میں آپ تمام اساتذہ کا بے حد احترام کرتا ہوں، مجبور بھی ہوں مگر ہم سب نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ٹیسٹ نہیں دیں گے اور میں اپنے دوستوں سے کیا وعدہ نہیں بھول سکتا‘۔ اس کے جواب پر ڈیپارٹمنٹ انتظامیہ مزید پریشان ہو گئی اوراگلے ہی دن ہم سب کو چئیرپرسن (ڈاکٹر امبرین جاوید) نے اپنے دفتر بلا لیا۔

ہماری پوری کلاس اکٹھی ہو کر دفتر پہنچی تو ہماری چئیرپرسن نے اونچی آواز اور تلخ لہجے میں کہا کہ: ’یہ کیا جلوس لے کر آجاتے ہو صرف دو لوگ بات کرنے کے لئے رکیں دیگر باہر چلے جائیں۔‘

استاد کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے تمام چلے گئے اور مذاکراتی ٹیم (جو مجھ پر اور رانا عرفان پر مشتمل تھی) نے میڈم سے بات چیت شروع کی۔ میڈم نے بغیر ٹیسٹ دئیے تھیسز نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ’ ٹیسٹ دو میں زیادہ بچوں کو تھیسز دے دوں گی ‘ مگر ہم تیاری کے بغیر ٹیسٹ دینے پر قائل نہ ہوئے اور یوں مذاکرات ناکام ہو گئے۔

اب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یونیورسٹی سے ملحقہ کنال روڈ بند کردیں گے اور اب مذاکرات صرف وی سی کے ساتھ ہی کئے جائیں گے۔  تاہم کلاس نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ آخری مرتبہ میڈم سے پوچھ لیا جائے وگرنہ ہم کنال روڈ پر دھرنے کے لئے بیٹھ جائیں گے۔

اب ہم میڈم کے پاس گئے تو انکا رویہ قدرے نرم تھا، انہوں نے پیار سے کہا کہ ’بیٹا ٹیسٹ دو میں زیادہ لوگوں کو تھیسز دے دوں گی۔‘ اس پر ہم نے استفسار کیا کہ میڈم آپ نمبر بتائیں کہ کتنے لوگوں کو تھیسز دیا جائیگا۔ شدید بحث کے بعد طے یہ پایا کہ ٹیسٹ کے بعد20 لوگوں کو تھیسز الاٹ کر دیا جائیگا۔

مذاکراتی ٹیم ٹیسٹ دینے کی شرط کے بعد 20 طلبہ کے تھیسز کی گارنٹی لے کر آئی  تو کلاس نے غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر ہمیں ریسرچ ہی نہیں پڑھائی گئی تو ہم بغیر پڑھے کیسے ٹیسٹ دیں گے؟ ہمارے برے ٹیسٹ کو جواز بنا کر ہماری بے عزتی کی جائیگی اور مذاق اڑایا جائیگا۔ کافی دیر بعد طے یہ پایا کہ ’ہم ٹیسٹ ضرور دیں گے۔ مگر اس پر کچھ نہیں لکھا جائیگا۔ ‘

اور ہم نے ایسا ہی کیا، تمام طلبہ نے ٹیسٹ پرچے پر اپنا نام اور رولنمبرلکھا اور ڈیوٹی پر موجود استاد کے حوالے کر دئیے۔ ہمارے اس رویے کو بدتمیزی سمجھا گیا اور ہماری بہت پسندیدہ استاد ہم سے ناراض ہو کر کمرہ امتحان سے باہر چلی گئیں تاہم دوسرے استاد نے خالی پرچے اٹھائے اور چئیرپرسن کے کمرے میں لے گئے۔

تھوڑی دیر بعد چئیرپرسن نے ہمیں اپنے دفتر بلایا اور خالی پرچے ہمارے منہ پر بھینک دئیے۔ میں کچھ دیر خاموش رہا بعد ازاں میڈم کو یہ کہہ کر کمرہ سے نکل آیا کہ ’میڈم ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا، آپ اپنا وعدہ پورا کریں‘

کچھ دیر بعد ایک لسٹ کے ذریعے ٹیسٹ دینے والے تمام طلبہ کو تھیسز اجراء کر دئیے گئے اور یوں ہم نے مل کر مشترکہ جدوجہد سے اپنا حق حاصل کر لیا۔

ڈیپارٹمنٹ میں موجود دیگر کلاسوں کے لوگ جو کچھ دیر قبل کوریڈور میں ہمیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جانے کا کہتے تھے اب خاموش تھے اور وہ بھی اس مشترکہ جدوجہد اور کامیابی کی تعریف کئے بنا رہ نہ سکے۔

تمام طلبہ جو اپنے مسائل لیکر پریشان ہیں انہیں اس تھیسز موومنٹ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج  طلبہ کے جو بھی مسائل ہیں ان کے حل نہ ہونے کی وجہ طلبہ میں اس یکجہتی کا فقدان ہے وگرنہ یہ پڑھا لکھا اور ذی شعور نوجوان طبقہ بڑے بڑے برج گرانے کی سکت رکھتا ہے۔ اس تعلیمی نظام کے ہاتھوں سب ہی مجبور ہیں۔ کسی کو پسماندہ علاقے میں انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے تو کوئی آن لائن کلاسوں اور فزیکل امتحانات سے پریشان ہے علاوہ ازیں سیکیورٹی اور سیاست کے نام پر کیمپس میں انتظامیہ کا جبر بڑھ چکا ہے۔

یقیناً بنیادی اور قانونی حق مانگنے کے عمل کو بد تمیزی یا سیاست سے تشبیہہ دے کر طلبہ کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم انسان کو سب سے پہلے اپنا حق مانگنے کا شعور دیتی ہے اگر طلبہ ،یونین کی بحالی سمیت اپنے جتنے بھی آئینی حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سب کے لئے انہیں مل کر لڑنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے دکھ سمجھنے اور ایک دوسرے کے لئے کھڑے ہونے سے ہی مشترکہ کامیابی ممکن ہے۔ پنجابی کے معروف شاعر بابا نجمی کے بقول؎

بے ہمتے نیں جہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اگن والے اگ پیندے نیں سینہ پھاڑ کے پتھراں دا
منزل دے متھے دے اتے تختی لگدی اوہناں دی
جہڑے گھروں بنا کے ٹر دے نقشہ اپنے سفراں دا۔۔۔!

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔