فریدہ بی بی پر ’رمضان المبارک کی عبادت‘‘ نامی کتاب میں قرآن پاک کی آیات پر مشتمل صفحات کو پھاڑنے اور جلانے کا الزام تھا۔ خاتون کے خلاف محمد عرفان نامی شخص نے مقدمہ درج کروایا تھا جس نے اس جرم کا گواہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
متاثرہ خاتون کے خلاف تھانہ یکی گیٹ پولیس نے 19 دسمبر 2020 میں مقدمہ درج کیا، جس میں خاتون پر عبادات سے متعلق کتاب کے صفحات جلانے کا الزام تھا۔
تفصیل کے مطابق لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے دو سال قبل توہین رسالت کے الزام میں گرفتار خاتون فریدہ بی بی کو رہا کر دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا تھا کہ ملزمہ اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو اسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔
ایڈیشنل سیشن جج حافظ حسنین اظہر شاہ نے تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے خاتون کو بری کیا گیا، فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن ملزمہ خاتون کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
کارروائی کے دوران، ملزمہ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ فریدہ بی بی کو ’شکایت کنندہ کی طرف سے بددیانتی اور مذموم مقاصد کے ساتھ جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا‘۔
وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ ’محمد عرفان اور اس کے دوست نے میری مؤکل کی چھاتیوں کو زبردستی چھونے کی کوشش کی اور جب اس نے اسے روکا تو اس پر توہین مذہب کا الزام لگایا جبکہ ملزمہ کو کتاب اسی حالت میں مقدّس اوراق کے ڈبے سے ملی تھی‘۔
عدالت نے 6جنوری 2022 کو فیصلہ دیا تھا کہ خاتون کو بری کر دیا جائے اور وہ اپنے گھر جا سکتی ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ ’انہوں نے کیس پراپرٹی (کتاب) کا جائزہ لیا اور ہارڈ کور کے اندر صرف ایک صفحہ چسپاں پایا جو آدھا پھٹا اور تھوڑا سا جلا ہوا تھا۔ کتاب کا صفحہ اول اتنا ہی محفوظ ہے جتنا کہ یہ ایک نئی کتاب ہے، یہاں تک کہ کتاب کے اندرونی صفحات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اچھی حالت میں ہے‘۔
جج کے ریمارکس کے مطابق شکایت کنندگان کے دعوے کے مطابق اگر ملزمہ خاتون نے مقدس کتاب کو تقریباً دو سے تین منٹ تک جلایا تو اسے مکمل طور پر جلا دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ پولیس اور تفتیشی افسر نے کیس کی مکمل تفتیش نہیں کی اور کتاب کا فرانزک بھی نہیں کروایا گیا۔
فیصلے میں، عدالت نے توہین رسالت کے ایک اور مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا: ’اس بات کا اعادہ کرنا مشکل ہے کہ استغاثہ ملزم کے خلاف اپنا مقدمہ کسی بھی معقول شک سے بالاتر ثابت کرنے کا پابند ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ملزم شک کے فائدے کے لیے حقدار ہے۔ ایک بے گناہ کو سزا دینے کے بجائے دس قصورواروں کو بری کر دیا جائے تو بہتر ہے۔