ہراسانی کیس: متاثرہ جوڑے نے ایک بار پھر ملزمان کو پہچاننے اور ویڈیو میں موجود ہونے سے انکار کر دیا

ہراسانی کیس: متاثرہ جوڑے نے ایک بار پھر ملزمان کو پہچاننے اور ویڈیو میں موجود ہونے سے انکار کر دیا
اسلام آباد جوڑے کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کیس میں شکایت کنندہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے بیان سے دستبرداری کا اعادہ کیا اور عدالت میں متاثرہ جوڑے پر وکیلوں کی جرح مکمل ہوگئی۔

متاثرہ جوڑا گزشتہ ہفتے تشدد اور جنسی زیادتی کے اپنے الزامات سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔

آج ہونے والی سماعت میں مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پر پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے جرح شروع کی تو لڑکے نے بتایا کہ میری تعلیم ایف ایس سی ہے اور ابھی میں کوئی کام نہیں کرتا، جب یہ واقع ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا جب یہ کیس شروع ہوا میں نے پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا۔

لڑکے نے کہا کہ میری مالی معاملات بہت خراب ہیں اور والدین میرے مالی خرچہ چلا رہے ہیں۔

اس نے بتایا کہ اس مقدمے کے اندراج کے بعد 4 سے 5 مرتبہ تھانہ گولڑہ گیا تھا، 8 جولائی کو میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ انسپکٹر شفقت والا نے صرف سادہ پیپر پر دستخط لیے تھے۔

لڑکے کا کہنا تھا کہ میں نے 161 کے بیان میں عثمان مرزا، ادریس، عطا الرحمٰن اور فرحان شاہین کو نامزد کیا اور دیگر کا کردار بھی بتایا تھا۔

پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ بیان حلفی میں آپ کہتے ہیں ویڈیو میں نظر آنے والے افراد وہ ملزمان نہیں کیا آپ کو واقعہ یاد ہے؟

جس پر لڑکے نے بتایا کہ اسے واقعہ یاد ہے لیکن اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا اور کہا کہ یاد نہیں میں نے اور سندس نے کس رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔

اس دوران سرکاری وکیل کی استدعا پر عدالت میں واقعے کی وڈیو چلائی گئی جس کے لیے عدالت نے کمرے سے سب کو باہر جانے کا حکم دیا۔

متاثرہ لڑکی نے کہا کہ میں کہہ چکی ہوں کہ کسی کو نہیں جانتی۔

بعدازاں ملزم عمر بلال کے وکیل شیر افضل نے متاثرہ لڑکے سے جرح کی اور عدالت سے ایک مرتبہ پھر ویڈیو چلانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میں ویڈیو کا صرف ایک کلپ دکھانا چاہتا ہوں اور لڑکے کو اس ویڈیو میں اس کی شکل دکھانا چاہتا ہوں۔

سماعت کا دوبارہ آغاز کیا گیا تو دورانِ جرح متاثرہ لڑکی نے کہا کہ عمر بلال سے ایک کروڑ روپے کا تقاضا نہیں کیا تھا، میں ہاؤس وائف تھی اور وقوعہ کے وقت میں بےروزگار تھی، میں اس وڈیو میں نہیں ہوں۔

وکیل نے سوال کیا کہ سوشل میڈیا پر آپ کے حق میں تحریک اٹھی تھی، آپ نے دستخط کیے بیان ریکارڈ ہوا سارے لوگ آپ کے مخالف کیوں ہیں؟

وکیل نے کہا کہ لڑکی پورے نظام انصاف کو جھٹلا رہی ہے، ساتھ ہی سوال کیا کہ دفعہ 164 کے تحت درج بیان پر دستخط انگوٹھا لگا ہے کیا یہ آپ کے ہیں؟

جس پر لڑکی نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتی، پہلے بتا چکی ہوں پولیس سادہ کاغذ پر دستخط انگوٹھے لگواتی رہی۔

وکیل شیر افضل نے کہا کہ آپ پہلے کہتی تھی یہ انگوٹھا میرا ہے اور اب آپ کہہ رہی ہیں یہ انگوٹھا میرا نہیں ہے جس پر متاثرہ لڑکی نے جواب دیا کہ میں نے سادہ پیپر پر دستخط اور انگوٹھا لگایا تھا کسی بھی لکھے ہوئے پیپر پر دستخط نہیں کیے۔

ایک سوال کے جواب میں متاثرہ لڑکی نے کہا کہ نکاح کی تاریخ یاد نہیں ایک ہی نکاح ہوا ہے جو اسد رضا کے ساتھ ہوا، ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد میرا اسد کے ساتھ نکاح ہوا ہمارا رشتہ ہو چکا تھا جو گھر والوں نے طے کیا تھا۔

وکیل کے سوال کے جواب میں متاثرہ لڑکی نے کہا کہ اسد رضا میرا منگیتر تھا اور ہماری گھر میں فیملی کے سامنے ملاقاتیں ہوتی تھیں، اسد رضا کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں رات گزارنے نہیں آئی تھی اور نہ ہی نوکری کی تلاش میں تھی۔

وکیل نے سوال کیا کہ آپ کی اس ویڈیو پر مختلف لوگ جیلوں میں ہیں کچھ باہر بھی ہیں، 164 کا بیان جو آپ سے منسوب ہے اس کے نتیجے میں اس مقدمے میں کسی کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے، اس ویڈیو کو ایف آئی اے نے مبینہ طور پر آپ کے حوالے سے حقیقی قرار دیا تھا۔

جس پر لڑکی نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ وہ کچھ نہیں جانتی، نہ اس نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی اسے معلوم ہے۔

لڑکی نے مزید کہا کہ اس مقدمے کے حوالے سے پولیس سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی، پیسے لے کر بیان تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے ابھی تک پیسے لیے ہیں،

لڑکی نے مزید کہا کہ میں نے اور میرے شوہر نے بیرون ملک جانے کے لیے کسی این جی او سے رابطہ نہیں کیا نہ کاغذات جمع کرائے، میں اس عدالت کے علاوہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئی، 164 کے بیان پر پولیس والے کا نام نہیں یاد کب کس وقت اس نے دستخط اور انگوٹھے لیے تھے۔

وکیل نے سوال کیا کہ آپ کا کونسا بیان ٹھیک ہے آپ پولیس والے سے ملی ہیں یا نہیں، جس پر لڑکی نے بتایا کہ اس کی پولیس سے ملاقات ہوئی ہے۔

دورانِ جرح وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ خاتون اور اس کے شوہر کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے جس پر ججج نے ریمارکس دیے کہ یہ استدعا حکم نامے میں آنی چائیے آپ ختم تو کر لیں۔

وکیل نے سوال کیا کہ ایف آئی اے کا ایکسپرٹ کہتا ہے ویڈیو میں آواز اور شکل آپ کی ہے، جس پر لڑکی نے کہا کہ دنیا میں ایک چہرے کے سات لوگ ہوتے ہیں، وکیل نے سوال کیا کہ ساتوں کے چہرے تو مل گئے آواز کس طرح مل گئی تو متاثرہ لڑکی نے ایک مرتبہ پھر لاعلمی کا اظہار کیا۔

وکیل نے سوال کیا کہ آپ نے پولیس کو دستخط اور انگوٹھے کا نشان کس جگہ پر دیا تھا جس پر لڑکی نے کہا کہ پولیس نے انگوٹھا اور دستخط کرنے کا کہا اور میں نے کر دیا، میں نہیں جانتی میرا بیان 164 کا کس نے کیا مرد یا عورت تھی۔

ایک سوال پر لڑکی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد آتی جاتی رہتی ہے اور یہاں اس کے تایا اور چچا رہتے ہیں۔

وکیل نے سوال کیا کہ کیا میزان بینک میں چچا کے اکاؤنٹ میں 13 دسمبر کو ایک کروڑ 75 لاکھ روپے ٹرانسفر ہوئے تو لڑکی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

وکیل کے مزید سوالات کے جواب میں لڑکی نے کہا کہ آج وہ ان لائن کار سروس پر عدالت آئی ہے جس کی ایپلیکیشن شوہر کے موبائل میں ہے، اس کے موبائل میں سوشل میڈیا موجود ہے لیکن وقت نہ ملنے کی وجہ سے اسے استعمال نہیں کرتی۔

لڑکی نے بتایا کہ جب ویڈیو وائرل ہوئیں تو خاندان نے مجھ سے پوچھا تھا جس پر میں نے کہا کہ یہ میری ویڈیو نہیں ہے۔

وکیل شیر افضل نے اسد رضا جرح کی جس میں متاثرہ لڑکے نے کہا کہ میری اور سندس کی ارینج میرج ہوئی تھی اور ہم رشتہ دار نہیں تھے، مجھے نہیں یاد میری اہلیہ کے ساتھ پہلی ملاقات کب ہوئی تھی۔

وکیل نے لڑکے سے سوال کیا کہ اسٹنٹ کمشنر کے سامنے دستخط اور انگوٹھے کہاں پر لگائے تھے جس پر لڑکے نے کہا کہ سادہ کاغذ پر دستخط اور انگوٹھے لگائے تھے ایک مرتبہ تھانے گئے لیکن دوسری مرتبہ اسلام آباد ہی میں دستخط لیے اس جگہ کا نام یاد نہیں، تھانہ گولڑہ میں جا کر پولیس نے دستخط اور انگوٹھے لیے تھے۔

وکیل نے سوال کیا کہ ویڈیو میں آپ کو بھی تھپڑ مارے تھے کس جگہ پر زیادہ پڑے تھے جس پر لڑکے نے کہا کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا۔

اس پر وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ گواہ سے کہا جائے کہ جواب دے ورنہ جرم کا ارتکاب ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں متاثرہ لڑکے نے کہا کہ پولیس نے ویڈیو میں نظر آنے والے کپڑے نہیں مانگے تھے، جس روز ویڈیو بنی میں اسلام آباد میں کام پر تھا، اس وقت فری لانسر اور پراپرٹی کا کام کرتا تھا، میری زیادہ دلچسپی ایف الیون میں تھی، کبھی فروخت کا کام نہیں کیا البتہ بہت سارے اپارٹمنٹس کرایے پر چڑھوائے۔

وکیل نے سوال کیا کہ ویڈیو میں جب آپ کو اور آپ کے ساتھی کو مار رہے تھے تو آپ نے پولیس کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟ جس پر لڑکے نے کہا کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا، بیان بدلنے کے کوئی پیسہ نہیں لیے، میں ملزمان کو نہیں جانتا، وقوعہ کے وقت اور اس اپارٹمنٹ پر میں نہیں گیا تھا۔

لڑکے نے بتایا کہ وقوعہ کے وقت میں چکلالہ اسکیم ڈھوک چوھدریاں 1122 گلی نمبر 2 اے میں رہتا تھا جو والد نے لیا تھا، اس گھر کا ساڑھے 17 ہزار روپے ادا کرتے ہیں جبکہ کپڑوں کی دوکان پر مینیجر تھے۔

اس دوران وکیل نے لڑکے سے سوال کیا کہ کیا آپ کے ساتھ جنسی فعل کیا گیا تو لڑکے نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔

ایک سوال پر متاثرہ لڑکے نے کہا کہ پولیس نے نہیں بتایا کہ دستخط کیوں لے رہے ہیں؟

وکیل نے سوال کیا کہ آپ نے اسٹامپ پیپر کس کے کہنے پر لکھے ہیں؟

جس پر لڑکے نے جواب دیا کہ ہمیں ملزمان نے نہیں کہا تھا، میں خود گیا تھا، اسٹامپ پیپر پر لکھوایا کہ ہم ان ملزمان کو نہیں جانتے، میں نے پولیس کو بیان نہیں دیا تھا۔

مزید سوالات کے جواب میں لڑکے نے کہا کہ پولیس والوں نے ہمیں ویڈیو نہیں دکھائی وہ ہم نے انٹرنیٹ پر دیکھی تھی اور مجھے نہیں یاد میں نے کب ویڈیو دیکھی۔

لڑکے نے کہا کہ میں کسی لیڈی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس نہیں گیا، 3 سے 4 مرتبہ تھانہ گولڑہ گیا تھا، پہلی مرتبہ میں اکیلا تھا اس کے بعد ایک دو مرتبہ اہلیہ تھانے گئی تھیں۔

وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں نے باہر جانے کا کوئی پروگرام بنایا ہوا ہے۔

جس پر لڑکے نے جواب دیا کہ باہر جانے کی پلاننگ تو 5 سال سے ہے لیکن ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس ملک جانا ہے۔

لڑکے نے کہا کہ خاندان والوں نے کہا کہ تمہاری ویڈیو ہے تو میں نے کہا یہ میری ویڈیو نہیں ہے۔

وکیل سوال کیا کہ کیا ویڈیو میں جو شخص نظر آرہا ہے وہ آپ ہیں یا آواز آپ کی ہے؟

لڑکے نے جواب دیا کہ میں ویڈیو میں نہیں ہوں، اس پر وکیل نے کہا کہ آواز بھی آپ سے ملتی جلتی ہے کوئی ہم زاد تو نہیں ہے کیا کہو گے؟

جس پر لڑکے نے جواب دیا کہ مجھے نہیں پتا وہ کون ہے اور کس کی آواز ہے، مجھے نہیں معلوم ایف آئی اے نے کہا ہے کہ میری ویڈیو اور آڈیو ہے۔

وکیل نے سوال کیا کہ جب پولیس کے پاس گئے تو اس وقت پولیس کو کیوں نہیں بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص میں نہیں ہوں اور کیا پولیس کو کہا تھا کہ ہم کیس نہیں کرنا چاہتے۔

لڑکے نے کہا کہ پہلے دن سے ہی ہم کیس نہیں کرنا چاہتے تھے، جس پر وکیل نے سوال کیا کہ پھر اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے، لڑکے نے جواب دیا کہ میں اس کے متعلق جواب نہیں دے سکتا۔

وکیل نے عدالت سے اپنے ملزم کے توسط سے استدعا کی کہ مقدمے میں نہیں ہوں ویڈیو میں نہیں ہوں کسی نے میرا نام نہیں لیا مجھ پر الزام ہے کہ میں نے بھتے کی رقم لی اور وہ بھتے کی رقم غلط نکلی استدعا ہے کہ میرے ملزم عمر بلال کو بری کیا جائے۔

اس کے بعد ملزم ریحان کے وکیل آصف بٹ نے متاثرہ لڑکے سے جرح کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں ریحان کو نہیں جانتا اور نہ ہی ریحان کی شکل دیکھی، نہ اس کا نمبر ہے نہ مجھ سے پیسے مانگے ہیں۔

وکیل نے سوال کیا کہ الزام ہے کہ اس نے ویڈیو بنائی، جس پر لڑکے نے کہا کہ نہیں، ریحان کو ترنول میں گرفتار کیا گیا مجھے نہیں معلوم ،ملزم ریحان کو پہلے تھانہ میں دکھایا گیا تھا۔

بعدازاں کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کر دی گئی، آئندہ سماعت پر مقدمے کے تفتیشی افسر سے جرح کی جائے گی۔

یاد رہے کہ یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب گزشتہ برس جولائی میں 4 افراد کی جانب سے ایک جوڑے کو بندوق کی نوک پر زبردستی بے لباس کرنے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

ابتدائی طور پر مذکورہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354-اے (خاتون کی عصمت دری کی نیت سے حملہ یا مجرمانہ جبر کرنا)، دفعہ 506 (تخویف مجرمانہ سزا)، دفعہ 341 (مزاحمت بیجا کی سزا) اور دفعہ 509 (جنسی ہراسانی) کے تحت درج کیا گیا۔

بعد ازاں ایف آئی آر میں عصمت دری، جنسی زیادتی، بھتہ خوری اور غلط قید سے متعلق دفعات بھی شامل کردی گئیں۔

ستمبر میں بنیادی ملزم عثمان مرزا اور شریک ملزمان حافظ عطا الرحمان، اداس قیوم بٹ، ریحان، عمر بلال مروت، محب بنگش اور فرحان شاہین کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

11 جنوری کو واقعات کے ایک حیران کن موڑ اس وقت آیا جب متاثرہ خاتون نے ملزم کے خلاف اپنا بیان واپس لے لیا اور ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ وہ اس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتی۔

اس پیش رفت کے ایک روز بعد پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے اعلان کیا تھا کہ متاثرہ جوڑے کی حالیہ گواہی سے قطع نظر ریاست ہراساں کرنے کے اس مقدمے کی پیروی کرے گی۔