عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پروفیسر اختر خان پر قاتلانہ حملہ، طلبہ سراپا احتجاج

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پروفیسر اختر خان پر قاتلانہ حملہ، طلبہ سراپا احتجاج
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے پروفیسر اختر خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان تین روز گزرنے کے باوجود بھی گرفتار نہ ہو سکے، طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ احتجاج میں طلبہ کے ساتھ یونیورسٹی کی فیکلٹی اور سول سوسائٹی کے افراد بھی شامل ہیں۔

منگل کے روز پروفیسر اختر خان روزمرہ کی خریدوفروخت کے لیے قربی مارکیٹ میں گئے تو واپسی پر چار مسلح افراد نے یرغمال بنا کر ان پر تشدد شروع کر دیا۔ جب آس پاس کے لوگ اکٹھے ہو کر ان کی مدد کو آئے تو مسلح افراد نے ان کو جان سے مارنے کی دھکمیاں دیں۔

پروفیسر اختر خان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی رقم تو تھی نہیں جس کو لوٹنے کے لیے مسلح افراد نے ان پر حملہ کیا تھا اس لیے ان کو لگتا ہے کہ یہ حملہ ان کی جان لینے کی کوشش میں کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تشدد اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور وہ یہ کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں سے وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

پروفیسر اختر خان پر اس بزدلانہ حملے کے ردعمل میں مردان میں طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ سول سوسائٹی اور میڈیا کے افراد بھی اس احتجاج میں شامل ہیں۔

'دی فرائیڈے ٹائمز' سے بات کرتے ہوئے صحافی جمال صافی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس طرح کے حملے آزادی رائے کے حق کو سلب کرنے کی کوشش ہیں۔

مردان شہر کے میئر حمایت اللہ خان نے بھی احتجاج میں شریک ہو کر پروفیسر اختر خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی جلد اور صاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

پختونخوا الاسی تحریک کے بانی ڈاکٹر سید عالم نے کہا کہ جب مشال خان کو قتل کیا گیا تھا تو پروفیسر اختر خان ان افراد میں سے تھے جو مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔ مشال خان صحافت کے طالب علم تھے اور انہیں اسی یونیورسٹی میں شدت پسند سوچ رکھنے والے افراد نے چند سال پہلے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 7 جنوری کو صوابی میں انسانی حقوق کے سرگرم رکن عبدالولی خان کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔