Get Alerts

بحریہ ٹاون مافیا ہے یا ریاست کے اندر ریاست

بحریہ ٹاون مافیا ہے یا ریاست کے اندر ریاست
تحریر: ( ارشد سلہری) پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکومت مافیا کے سامنے ڈٹ گئی ہے۔ وزیر اعظم نے کسی قسم کے دباو کو خاطر میں نہ لانے کا واضح اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مافیا کے سامنے جھکنا ملک و قوم کے ساتھ غداری ہوگا۔ اب ملک کے تمام طبقات کا قومی فریضہ ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں۔ دانستہ یا نادانستہ مافیا کی سپورٹ میں جانے والے کسی اقدام کا حصہ بنیں اور نہ ہی حمایت کریں۔ حکومت کے اچھے کاموں کو سراہا جائے۔ غلطیوں، کوتاہیوں سمیت عوام دشمن اقدام پر بھر پور تنقید کی جائے مگر مافیا کی حمایت ہرگز ہرگز نہ کی جائے۔ کوئی جواز نہ تلاش کیا جائے نہ کوئی بہانہ تراشا جائے۔

 صد شکر ادا کریں کہ پچھلے ستر سالوں میں ملک و قوم مافیا کی جس جکڑبندیوں میں جکڑی ہوئی تھی  اس مافیا سے نجات کا وقت آگیا ہے ۔ 

سسلین مافیا ڈان تو وزیر ،مشیر اور جج خریدتا ہوگا مگر پاک مافیا ڈان ملکی صدر سے لیکر پوری کی پوری حکومتیں خرید لیتا ہے۔ پورے کے پورے محکمہ جات پاکی مافیا ڈان کی مٹھی میں ہیں۔ فورسز سلیوٹ کرتی ہیں۔ میڈیا کا وہ خود مالک ہے۔ صحافی اس کا پانی بھرتے ہیں ۔ دنیا کی بہترین آرمی کے اعلیٰ آفیسر ریٹائرمنٹ کے بعد پاکی مافیا ڈان کے پاس ملازمت کرتے ہیں ۔ پاکی مافیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاک بحریہ کے نام پر بلاشرکت غیر ایشیا کا سب سے بڑا ہاوسنگ پراجیکٹ جو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے طمطراق سے چلا یا جارہا ہے۔

جہاں اشرافیہ جو ملکی مسائل غربت ،مہنگائی ،دہشت گردی، بے روز گاری،بدامنی دھماکے وغیرہ سے بے نیاز رہائش پذیر ہے، جو لوگ بحریہ ٹاون میں جاتے ہیں یا جنہوں نے دیکھا ہے وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ بحریہ ٹاون کو دیکھ کر نہیں لگتا ہے کہ پاکستان اس قدر غریب ملک ہے اور پاکستانی عوام کا 98 فیصد طبقہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے ۔ بحریہ ٹاون کے انتظامات، سیکورٹی، دکانیں، جم, سکول، ہسپتال الغرض تمام تر حوالے سے ایک الگ ریاست ہے۔ بحریہ ٹاون بنانے میں کتنے معصوم لوگوں کا خون اور کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارہ گیا ہے، بحریہ ٹا ون کی بنیادوں میں کتنے انسانوں کا خون ہے، کتنے غریب لوگوں کی سسکیاں دبی ہیں۔ یہ ایک خوفناک، بھیانک اور لمبی کہانی ہے۔

بحریہ ٹاون کی ایک ایک دیوار کے نیچے کئی کئی انسانوں کا خون ہے۔ زمین ہتھانے کیلئے قتل غارت گری، زمینوں پہ ناجائز قبضے اور دیگر شیطانی کاروائیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ریاست پاکستان آج تک اس کو نام بدلنے پر مجبور نہیں کر سکی ہے۔ ملک کی کوئی فورس کسی بھی مقدمہ میں گرفتار کرنے کی جرات نہیں رکھتی ہے اور نہ کوئی عدالت سزا دینے کی ہمت کر سکتی ہے۔ ایم این اے ،ایم پی اے اور وزیر مشیر بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ملک کے بڑے بڑے سیاستدان جو وزیر اعظم اور صدر بھی بنتے ہیں اور بن چکے ہیں ان کا گاڈ فادر ہے۔ موجودہ حکومت میں بھی کئی نمائندے شامل ہیں۔ سیاسی اتحاد، احتجاجی مارچ ، لانگ مارچ ،مارشل لاسمیت ملک وقوم کے تمام بڑے فیصلوں میں پاکی مافیا ڈان کی مشاورت ضرور شامل ہوتی ہے بصورت دیگر کامیابی کے امکان کم ہوجاتے ہیں۔

 موصوف کے بیک وقت حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے قریبی تعلقات ہیں ۔ کسی بھی جانب سے خرید و فروخت کی ضرورت پوری کردی جاتی ہے ۔

ق لیگ، پیٹریاٹ ،پاک سرزمین پارٹی سمیت فاروڈ بلاک بنانے کے امور انجام دیتے ہیں۔ آرمی چیف ہو یا صدر پاکستان یا وزیراعظم سب کو رام کرنے کے گُر سے خوب واقف ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین جیسے طاقت ور چیف بھی آن کی آن میں ڈھیر ہوتے دیکھے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے قریبی مراسم ہیں ۔ وزارت اعظمی کے وقت یوسف رضا گیلانی، نواز شریف جیسے بڑے نام مذکور کے اپنے بندے تھے۔ ملک کے ہر ادارے کے سربراہ سمیت تمام بیوروکریسی آئین کی بجائے پاکی مافیا ڈان کی عزت کرتی ہے۔ بڑے سے بڑے واقعہ پر میڈیا نام نشر کرنے سے گریز کرتا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے قتل پر بھی نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے نام سے خبر نشر اور شائع ہوئی تھی۔

کسی مائی کے لال نے ہاوسنگ سوسائٹی کا نام لکھنے کی جرات نہیں کی تھی۔ سسلین مافیا ڈان توتورینا جذبات میں بہہ کر قتل و غارت پر اتر آتے ہیں۔ جذبات ہی توتورینا کی گرفتاری کا باعث بنے اور جیل میں مر گئے۔ پاکی مافیا ڈان ہر وہ کام کرتے ہیں جو توتورینا نے کیے تھے مگر مات نہیں کھاتے ہیں بلکہ ہرممکن طریقے سے جتتے ہیں۔

 

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔