اکتوبر 1995 میں فوجی افسران کی ایک سازش بے نقاب ہوئی جس کے مطابق چند فوجی افسروں نے فوج کی اعلیٰ قیادت، صدر، وزیر اعظم اور کچھ وزراء بشمول آصف علی زرداری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس سازش (آپریشن خلافت) میں فوج کے اعلیٰ افسران بھی ملوث تھے۔ 26 ستمبر 1995 کو فاٹا سے آنے والے برگیڈیئر مستنصر باللہ کی گاڑی کو ایک پولیس چیک پوسٹ پر روکا گیا اور اس کی تلاشی کے نتیجے میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر برآمد ہوئے۔ برگیڈیئر نے رعب جمانے کی کوشش کی اور GHQ سے رابطہ کیا لیکن بقول کوثر نیازی لائن کٹ چکی تھی۔ تحقیقات کے مطابق چھتیس فوجی افسران اور بیس سویلین اس منصوبے کا حصہ تھے اور یہ سب افراد، ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے تبلیغی جماعت کے رکن، مفتی صوفی اقبال کے مرید تھے۔
مشرّف حکومت کے آتے ہی سب سے پہلے ظہیر السلام عباسی رہا
صوفی صاحب اکثر 10 کور ہیڈ کوارٹر میں درس دیا کرتے تھے۔ ظہیر الاسلام عباسی کا تعلق بھی تبلیغی جماعت سے تھا اور وہ افغانستان کے علاوہ بھارت میں پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے اپنی خدمات پیش کر چکے تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ کور کمانڈروں کی کانفرنس کے دوران GHQ پر حملہ کر کے کانفرنس کے شرکاء کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے۔ اس کارروائی کے بعد قوم سے خطاب والی تقریر بھی تیار کی جا چکی تھی جس کے مطابق ملک کو ایک 'پاکستانی سنی مملکت' قرار دیا جانا تھا جہاں 'مکمل اسلامی نظام' نافذ کیا جانا تھا۔ اس تقریر میں موسیقی، فلموں، اسقاط حمل کی ادویات، سودی کاروبار اور عورتوں کی تصاویر پر پابندی عائد کرنے کا حکم بھی موجود تھا۔ اس منصوبے میں حرکت الجہاد الاسلامی کا سربراہ قاری سیف اللہ اختر بھی شامل تھا، جس نے مستنصر باللہ کی گاڑی سے برآمد ہونے والا اسلحہ فاٹا سے خریدا تھا اور جس کی جماعت کے ارکان نے کانفرنس پر حملہ کرنا تھا۔
(مشرف حکومت آتے ہی سب سے پہلے کیے گئے اقدامات میں ایک ظہیرالاسلام کو رہا کرنا بھی تھا۔ قاری سیف اللہ اختر کو 'مقتدر حلقوں' نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر استعمال کیا اور بعدازاں وہ افغانستان میں ملا عمر کا مشیر رہا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سیف اللہ اختر سعودی عرب فرار ہوا اور سنہ 2004 میں دبئی حکومت نے مشتبہ کارروائیوں کے ضمن میں اسے گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا۔ مشرف اور بینظیر پر قاتلانہ حملوں میں اس کا گروہ ملوث پایا گیا۔)
پاکستانی سفارتخانے میں تعینات ملٹری اتاشی برگیڈیئر خالد مقبول صاحب جعلی نوٹوں کا کاروبار کرتے پکڑے گئے
سنہ 1995 میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے میں تعینات ملٹری اتاشی برگیڈیئر خالد مقبول صاحب جعلی نوٹوں کا کاروبار کرتے پکڑے گئے، ان کے تیار کردہ جعلی نوٹ اس قدر اعلیٰ نوعیت کے تھے کہ امریکی محکمہ خزانہ کو سو ڈالر کے نوٹ کا ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔ خالد مقبول صاحب کو پاکستان بھیج دیا گیا، اور مشرف دور میں وہ پنجاب کے گورنر مقرر ہوئے۔
اس سے قبل 1994 میں دیر سے تعلق رکھنے والے صوفی محمد نامی ایک مولوی نے سوات اور مالاکنڈ کے علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ سرکاری دفاتر بند کر دیے گئے، ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا گیا اور ٹریفک روک لی گئی۔ ٹریفک کو بائیں طرفہ سے دائیں طرفہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ پشاور سے بھیجے گئے جج حضرات کو محاصرے میں لے لیا گیا اور فسادات کے دوران صوبائی اسمبلی کے رکن بدیع الزمان خان کو قتل کر دیا گیا۔
شریعت کے کندھے پر 'فوری انصاف' کی بندوق رکھ کر چلائی گئی
تحقیقات کے مطابق سوات میں شریعت کے نفاذ سے دراصل والئ سوات کے عہد میں کیے جانے والے 'فوری انصاف' کا قیام مقصود تھا۔ والئ سوات کے دور حکومت میں سوات کی آبادی چند دیہات پر مشتمل تھی اور ان حالات میں حکمران کے لئے جرم کی کوئی سی سزا تجویز کرنا سہل تھا۔ سنہ 1970 میں ون یونٹ کے اختتام پر سوات میں جدید قانون کی بنیاد پر عدالتی نظام شروع ہوا تو وہ بزرگان کرام کو سست رفتاری کے باعث پسند نہیں آیا۔ ایسے میں شریعت کے کندھے پر 'فوری انصاف' کی بندوق رکھ کر چلائی گئی۔ صوفی محمد نے سنہ 1989 میں دیر کے علاقے میدان میں 'تحریک نفاذ شریعت محمدی' نامی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کے بیشتر ارکان مختلف مساجد کے ائمہ اور مدارس کے نگہبان تھے۔ اس جماعت کے مختلف ارکان نے صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ صوفی محمد نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر دیر کے حلقے سے صوبائی انتخاب میں شرکت کی لیکن ناکام ٹھہرے۔
صوفی محمد کو یقین دہانی کروائی گئی کہ شریعت کے مطالبے پر بتدریج عمل کیا جائے گا
سوات پر حملہ کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق کوہستان، دیر اور باجوڑ ایجنسی سے تھا۔ عوام کے جذبات کو بھڑکانے میں جماعت اسلامی نے بھرپور کردار ادا کیا اور سوات کے واقعہ سے قبل جماعت کی جانب سے بازاروں میں پمفلٹ تقسیم کیے جاتے رہے جن میں شریعت اور 'اسلامی نظام' کے قیام کی خاطر قربانی دینے کا پیغام موجود ہوتا تھا۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ فوج کو طلب کرنا پڑا۔ مختصر تنازعے کے بعد امن وامان بحال ہوا اور صوفی محمد کو یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ ان کے مطالبات پر بتدریج عمل کیا جائے گا۔
https://youtu.be/ghQ57OZxBrQ
نواز شریف پر بغاوت کا مقدمہ
اس دور میں عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رواج عروج کو پہنچ گیا۔ ایک جج صاحب کو صرف اس جرم میں برطرف کیا گیا کہ انہوں نے نواز شریف کے والد کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے نواز شریف پر بغاوت کا مقدمہ درج کروا دیا۔ مہاجر قومی تحریک اور مسلم لیگ نواز کے کئی ارکان اسمبلیوں کے رکن ہونے کے باوجود جیل کاٹتے رہے۔ جون 1994 میں جسٹس نسیم حسن شاہ کی مدت ملازمت پوری ہونے پر Senior Most جج جسٹس جان کی جگہ سجاد علی شاہ صاحب کو منصف اعلیٰ (Chief Justice) کا عہدہ سونپا گیا۔ پنجاب اور سندھ کے چیف جسٹس صاحبان کو برطرف کر کے اپنی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے ججوں کو نوازا گیا۔ اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں نو اور لاہور ہائی کورٹ میں بیس نئے جج بھرتی کیے گئے جن میں اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ان ججوں میں سے ایک صاحب نے زندگی میں پہلی دفعہ اعلیٰ عدالت کی عمارت دیکھی تھی جبکہ دیگر افراد میں سے پانچ نے بحیثیت وکیل کبھی ہائی کورٹ میں مقدمہ پیش نہیں کیا تھا۔ بلوچستان کے علاوہ تمام صوبائی اعلیٰ عدالتوں میں قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیے گئے۔
ججوں کی بندر بانٹ سپریم کورٹ میں چیلنج
اس بندر بانٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور یہ کیس پاکستان کی قانونی تاریخ میں 'ججز کیس' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ججوں کی تقرری کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا جائے گا، قائم مقام چیف جسٹس زیادہ سے زیادہ نوے دن تک کام کر سکتے ہیں اور ان کے مشورے پر نئے جج تعینات نہیں کیے جا سکتے، چیف جسٹس کی تقرری کے موقعہ پر Senior Most جج کو ترجیح دی جائے گی، سپریم کورٹ کے ججوں کو ہائی کورٹ میں تعینات نہیں کیا جائے گا اور حکومت کسی جائز وجہ کے بغیر کسی اعلیٰ عدالت کے جج کا تبادلہ نہیں کرے گی۔
ججوں کو پریشان کرنے کی کوششیں
اس تاریخ ساز مقدمے کی سماعت کے دوران اور فیصلے کے بعد ججوں کو تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سرکاری گاڑی اغوا کر لی گئی، ان کی بیٹی اور داماد کو ہراساں کیا گیا، جسٹس ناصر اسلم زاہد کو شریعت عدالت بھیج دیا گیا، جسٹس فضل الہٰی کے بیٹے کو چترال میں تعینات کر دیا گیا۔
محترمہ اور ان کے شوہر نے پچیس لاکھ پونڈ کے عوض برطانوی شہر سرے محل خرید لیا
ان تمام حرکات کے باوجود اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے جون میں صوبائی اور وفاقی عدالت سے چوبیس ججوں کو برطرف کر دیا گیا کیونکہ ان کی تقرری کے لئے حکومت نے عدالت عظمیٰ سے مشورہ نہیں کیا تھا۔ جون ہی میں ایک برطانوی اخبار نے یہ انکشاف کیا کہ محترمہ اور ان کے شوہر نے پچیس لاکھ پونڈ کے عوض برطانوی شہر سرّے میں ایک محل نما مکان خریدا ہے۔ وزیر اعظم کے ترجمان نے اس خبر کی تردید کی لیکن برطانوی اخبار اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ زرداری صاحب نے لندن کے پوش علاقے میں دو فلیٹ خریدے جن کی ادائیگی بیرون ملک واقع بینک اکاؤنٹ سے کی گئی۔
پاکستانی معیشت دگرگوں
14 ستمبر 1996 کو بینک دولت پاکستان نے روپے کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا۔ IMF نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کیا جائے، فوج پر خرچ کم کیا جائے، برآمدات کا ٹیرف کم کیا جائے، جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ کیا جائے اور مختلف صنعتوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے۔
مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا سازش
20 ستمبر 1996 کی رات، وزیر اعظم کے بھائی مرتضی بھٹو کو ان کے گھر کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 17 ستمبر کو مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سونارہ کو پولیس نے سیما اور عنایت حسین (پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے عہدہ داران) کے گھر سے گرفتار کیا۔ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے رہنما مرتضیٰ نے علی کی تلاش میں پہلے سی آئی اے کے گارڈن تھانے کا رخ کیا لیکن وہاں سے مطلوبہ معلومات حاصل نہ ہوئیں۔ مرتضیٰ اور ان کے ساتھ موجود گارڈز مایوسی کی حالت میں ایس ایس پی ساؤتھ تھانے پہنچے لیکن وہاں موجود پولیس اہلکار انہیں علی سونارہ کی گرفتاری کے متعلق تسلی بخش جواب مہیا نہ کر سکے، البتہ ایک پولیس اہلکار نے مرتضیٰ پر پستول تاننے کی کوشش کی جس کے باعث پولیس اور مرتضیٰ کے گارڈز کے درمیان تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ اس چپقلش کے دوران مرتضیٰ نے ایک پولیس سپرٹنڈٹ کو گریبان سے پکڑا اور علی سونارہ کے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ دیر گرما گرمی کے بعد مرتضیٰ کا قافلہ نیپئر روڈ تھانے کی جانب رواں ہوا لیکن وہاں بھی انہیں مطلوبہ معلومات نہ مل سکیں۔
مرتضیٰ خود چل کر پولیس کی گاڑی میں بیٹھے، کچھ دیر بعد گاڑی سے گولیوں کی آواز آئی
20 ستمبر کی صبح تک 70 کلفٹن (مرتضیٰ کی رہائش گاہ) کے اردگرد چار بکتر بند گاڑیاں تعینات کی جا چکی تھیں۔ اس دوران وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے اسمبلی میں تقریر کے دوران علی سونارہ کی گرفتاری کے باعث دہشتگردی کے واقعات کی پیش گوئی کی۔ 20 ستمبر کی دوپہر مرتضیٰ بھٹو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ کی ہدایت پر پولیس کے اعلیٰ ارکان واجد درانی اور شعیب سڈل ان کی جان کے درپے ہیں۔ پریس کانفرنس کے بعد مرتضیٰ اپنے قافلے کے ہمراہ سرجانی ٹاؤن میں اپنی جماعت کے جلسے سے خطاب کرنے کے لئے روانہ ہوئے۔ جلسے سے واپسی پر مرتضیٰ کی گاڑی کو کلفٹن کے علاقے میں روکا گیا اور پولیس کی فائرنگ کے باعث چھے گارڈز انتقال کر گئے جبکہ مرتضیٰ کو زخمی حالت میں قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ جائے وقوعہ پر حق نواز سیال اور شاہد حیات نامی پولیس افسران موجود تھے۔ فائرنگ کے دوران سٹریٹ لائٹیں بند تھیں اور واقعے کے پندرہ منٹ بعد جائے وقوعہ کو پانی سے دھویا جا چکا تھا۔
https://youtu.be/btsJBfXFl-Q
عینی شاہدین کے مطابق میر مرتضیٰ اپنے قدموں پر چل کر پولیس کی گاڑی میں سوار ہوئے جو انہیں ہسپتال لے گئی۔ دو تلوار کے قریب اس گاڑی سے گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ Mideast ہسپتال میں مرتضیٰ کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل کیا گیا لیکن سپیشلسٹ ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے باعث انہیں مطلوبہ نگہداشت نہ مل سکی اور آدھی رات سے دس منٹ قبل ان کی وفات کا اعلان کر دیا گیا۔ حق نواز سیال اور شاہد حیات اس واقعے میں زخمی ہوئے لیکن میڈیکل بورڈ کے مطابق حق نواز اپنی ہی گولی سے زخمی ہوا۔ بورڈ کے اس فیصلے کے اگلے ہی روز حق نواز کو اس کے گھر میں دو مشتبہ افراد نے قتل کر دیا۔
https://youtu.be/E38PO9yURyE
جنوبی پنجاب میں شیعہ سنی فسادات
اس واقعے کے تین روز بعد ملتان میں فجر کے وقت جماعت پر فائرنگ سے تیئس افراد جاں بحق ہوئے جن میں سپاہ صحابہ کے ایک مدرسے کے دس بچے بھی شامل تھے۔ اس سے پہلے اگست کے مہینے میں بہاولپور کے ایک شیعہ عالم اور سرگودھا کے کمشنر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر صدر لغاری نے باضابطہ تشویش کا اظہار کیا۔ 26 ستمبر کو انہوں نے اپوزیشن سربراہ نوازشریف سے ملاقات کی اور تمام جماعتوں کو مفاہمت کے ساتھ سیاست کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر مملکت نے ایوان زیریں اور ایوان بالا کو مطلع کیا کہ وہ کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن تشکیل دیں گے۔
جنہوں نے بھائی اور والد کو قتل کیا وہ مجھے بھی زندہ دیکھنا نہیں چاہتیں
وزیر اعظم بینظیر صاحبہ نے لغاری، نواز ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقتدر قوتیں ان کی حکومت اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے والد اور بھائیوں کی موت کی ذمہ دار قوتیں ان کو بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس دوران وہ برطانیہ اور امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئیں۔ 20 اکتوبر کو وزیر اعظم نے صدر کے مقرر کردہ پراسیکیوٹر کے آگے پیش ہونے کا عندیہ دیا اور اسی روز وزیر مملکت برائے قانون نے پندرہویں آئینی ترمیم کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جس کے مطابق سرکاری عہدے پر فائز کوئی بھی شخص کرپشن میں ملوث ہونے کی صورت میں سزا کا حقدار ہوگا۔ 27 اکتوبر کے روز جماعت اسلامی کے ارکان نے قومی اسمبلی کے باہر حکومت کے خلاف احتجاج کیا جس پر لاٹھی چارج ہوا اور آنسو گیس استعمال کی گئی۔ 29 اکتوبر کو نواز شریف نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس طلب کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ احتجاج کے طور پر اسمبلیوں سے استعفا دیا جائے گا اور اس کے بعد ملک گیر ہڑتال منعقد کی جائے گی۔
بینظیر حکومت برطرف
5 نومبر کو صدر لغاری نے اپنی ہی جماعت کی حکومت برطرف کر دی اور تازہ انتخابات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے اس دور میں قومی اسمبلی نے صرف ایک قابل ذکر قانون پاس کیا جبکہ 335 صدارتی احکامات جاری کیے گئے۔ گذشتہ حکومت کے ترقیاتی کاموں جیسے موٹر وے کے منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے گئے۔
https://youtu.be/3NfhUFuixR0
https://www.youtube.com/watch?v=JwGLt2Rf4dg
حکومت کے چند انتہائی غلط اقدامات
اپنے سیاسی حریفوں کو غیر پارلیمانی القابات سے نوازنے کا کام محترمہ نے بخوبی انجام دیا اور کبھی مہاجروں کو 'بزدل چوہے' تو کبھی اپوزیشن جماعتوں کو 'کمینے' کہا۔ صدر فاروق لغاری سے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کروایا گیا جس کے تحت مخصوص علاقوں میں پولیس کے زیرنگرانی دیے گئے بیانات کو عدالت میں قابل قبول قرار دیا گیا۔ پولیس کے زیر نگرانی بیان کیسے لیے اور دیے جاتے ہیں، اس سے تو آپ واقف ہوں گے۔ اقتصادی پالیسی کے میدان میں محترمہ کے مشیران ذاتی اناؤں کے بھینٹ چڑھتے رہے اور ملک دیوالیے کی سطح پر پہنچ گیا۔ شمالی پنجاب کے اضلاع (گجرانوالہ، شیخو پورہ، نارووال، شکر گڑھ، گجرات) میں امن و امان کی صورت حال ایک موقعے پر اس حد تک بگڑ گئی کہ کئی علاقوں میں مسلح گروہوں کے خلاف پولیس کی کارروائی ناکام ثابت ہوئی اور بہت سے دیہات ’نو گو ایریا‘ بن گئے۔ مہران بنک سے 1990 میں خفیہ ادارے مستفید ہوئے تو 1994 میں اسی مہران بنک کی مالی امداد کے توسط سے آفتاب شیر پاؤ، سلیم سیف اللہ اور زرداری صاحب نے سرحد اسمبلی میں ’جوڑ توڑ‘ کی سیاست کی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے برخلاف پنجاب میں بلدیاتی نظام کو بحال نہیں کیا گیا۔ پاکستان سٹیل مل کے معاملات میں ’دولہا بھائی‘ اور ملک میں چاول کی تقسیم میں بی بی کی جانب سے بے جا مداخلت کے باعث ملکی خزانے کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان بیت المال کی جانب سے وزیر داخلہ کے نام جاری کردہ بیشتر چیک جعلی تھے اور مستحق افراد کے نام پر حکومتی جماعت کے ارکان عیش کرتے رہے۔ ملک میں موبائل فون کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی لیکن حکومتی عہدہ داروں کے علاوہ اس کو استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔