Get Alerts

میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس: 'زرداری نے مجھے کہا کہ مرتضیٰ مر گیا ہے لیکن بے نظیر کو نہ بتانا'

میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس: 'زرداری نے مجھے کہا کہ مرتضیٰ مر گیا ہے لیکن بے نظیر کو نہ بتانا'
حکمرانی کوئی شغل عشرت نہیں ہے بلکہ کانٹوں سے بھرپور راہ گزر ہے۔ جہاں طاقت کے حصول کے لئے اپنوں کی لاشیں بچھانے اور پرائیوں کو اپنا بنانے سے بھی گرزی نہیں کیا جاتا۔ عام طور پر طرز حکمرانی کا یہ اسلوب قدیم بادشاہتوں سے منسوب ہے تاہم افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج کے جدید جمہوری دور میں بھی طاقت کے جوڑ توڑ کی فطرت یہی ہے۔

پاکستان میں بھی حکمرانی کو جانے والے راستوں پر مسافروں کا کشت و خون ہوا ہے جس سے مسند اقتدار پر بھی اکثر خون کے چھینٹے پڑے ہیں۔ چاہے وہ لیاقت علی خان کی شہادت  ہو یا پھر بینظر بھٹو کو دہشت گردی کی واردات میں شہید کیا جانا، ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی داستان ہو یا پھر ضیال الحق کی پر اسرار حادثے میں موت کا ذکر ۔ اقتدار کے ایوان ایسی کئی کہانیوں کے شاہد ہیں جن سے آج تک پردہ وا نہیں ہوا۔

ان سب میں 90 کی دہائی میں ہونے والے میر مرتضٰی بھٹو کے قتل کا واقعہ بھی اہمیت رکھتا ہے جو تب قتل ہوئے جب انکی ہمشیرہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم پاکستان اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھیں۔ حیران کن امر یہ کہ اس خوفناک قتل کی واردات کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ گو کہ اس قتل میں انکے اپنے بہنوئی آصف علی زرداری کے ملوث ہونے کی باتیں عم ہوتی رہیں تاہم اسے کوئی حتمی نتیجہ نہ دیا جاسکا۔

1996 میں ہوئی قتل کی اس واردات  سے جڑے سنسنی خیز واقعات  سے اس وقت کے صدر فاروق خان لٖغاری نے اسحٰق خاکوانی کو روحی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنی وفات سے کئی سال قبل  پردہ اٹھایا تھا۔

اس ویڈیو میں فاروق لغاری کہتے ہیں کہ ایک دن میرا ملٹری سیکریٹری میرے پاس آیا اور بولا کہ (وزیر اعظم) بینظیر آپ سے ملنے کے لئے نکل چکی ہیں پرائم منسٹر ہاوس سے ۔ پانچ منٹ کا راستہ ہے بائی روڈ، میں بڑا حیران ہوا کیونکہ ہماری کوئی میٹنگ تو شیڈول نہیں تھی۔اتنے میں وہ پہنچ گئے۔ انکے ساتھ (آصف علی) زرداری بھی تھا۔  مجھے بینظیر  اپنے بھائی میر مرتضی بھٹو کی شکایت کرتے ہوئےکہنے لگیں کہ میر مرتضیٰ ہمیں بہت تنگ کر رہا ہے۔ وہ بہت شراب پی رہا ہے آجکل اور شرب کے نشے میں دھت ہو کر وہ پولیس سٹیشنوں میں جا کر  بندے رہا کرواتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ابھی وہ بتا رہی تھیں اتنے میں زرداری نے کہا ،اپنی بیوی کو، بے نظیر محترمہ کو ، اللہ اسے بخشے، کہ چھوڑو ان باتوں کو۔ اور پھر مجھ سے انگریزی میں مخاطب ہو کر کہنے لگا اسکو ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ہمارے کلچر کی۔ یا میں ہوں گا یا وہ(میر مرتضیٰ) ہوگا۔

میں اچانک چوکنا ہوگیا میں نے کہا کہ یہ کیا بات کر رہا ہے۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے بے نظیر کو جواب دیا۔ مین نے کہا بے نظیر، میر مرتضیٰ بھٹو تمہارے والد کا بڑا بیٹا ہے اور تمہارا بھائی ہے۔ اور تمہارے یا اس کے درمیان کوئی دشمنی کوئی جھگڑا یا فساد تمہیں نقصان دے گا۔ وہ بیچارہ ایک ایم پی اے ہے ، تم وزیر اعظم ہو۔ یہ تمہارے لئے نقصان دے ہوگا۔ تم مہربانی کرکے اس سے اپنے جھگڑے ختم کرو۔ میر مرتضیٰ کا نمائندہ پرزیڈنٹ سندھ  مخدوم صاحب،  میرے پاس آیا تھا۔ اگر تم چاہو تو میں اس سے مل کر افہام و تفہیم کروا سکتا ہوں اور میں حاضر ہوں۔ تم اسے چاہے جائداد زیادہ دو چاہے سندھ میں سینئر وزیر بناؤ اسکو کچھ دو اور اسے راضی کرو، اپنے اختلافات کو دور کرو۔ اسنے کہا اچھا چھا ہم کر لیں گے کوئی مسئلہ نہیں ہم کر لیں گے۔ یہ بات ہوئی اور وہ چلے گئے۔

کچھ دنوں کے بعد میرا زمبابوے اور یوگنڈا کا دورہ تھا۔ یہ دورہ  وزیر اعظم کی ایڈوائس پر تھا۔  یو این کی جانب سے ہونے والے ایک سمٹ میں شرکت کے لئے جس میں بتایا جانا تھا کہ وہ کیسے شمسی توانائی کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ اس میں ایک میں تھا ایک مصر کے صدر حسنی مبارک تھے اور ایک تھے صدر، زمبابوے کے صدر موگابے۔ میرے تین چار دن اس میں صرف ہوئے اور پھر میں عمرہ کر کے واپس آیا۔  جس رات میں واپس پہنچا اسی رات مجھے فون آیا جنرل بابر کا کہ میر مرتضیٰ پر حملہ ہوا ہے اور  وہ بہت زخمی ہے۔

رات کے دس بجے تھا معلوم نہیں ، کافی وقت ہو چکا تھا۔

میں نے پھر فون کیا فوراً ڈاکٹر غفار جتوئی  کے ہسپتال میں

 

فاروق خان لغاری کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حال ہے اسکا یہ مجھے اطلاع ملی ہے ؟ اسنے بتایا کہ بہت سخت حملہ تھا گولیوں کے فائر بہت سخت تھے یہ بچ نہیں سکتا تھا ۔ تاہم اب کچھ حالت بہتر  ہوئی ہے۔میں نے پھر بے نظیر کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے بتایا گیا کہ وہ کسی کا فون نہیں اٹھا رہی اور وہ اب ائیرپورٹ جارہی ہے۔  میں جو ائیرپورٹ ۔۔۔ میں نے مناسب سمجھا کہ میں ائیرپورٹ جاؤں اس وقت اور بے نظیر کو ائرپورٹ پر الوداع کروں.

 

وہ کہتے ہیں کہ میں اس سے کوئی تین چار منٹ قبل ائیرپورٹ پہنچ گیا ۔ جو وی آئی پی لاؤنج ہے۔ اتنے میں یہ اور زرداری بھی پہنچے۔

یہ تو (بے نظیر)غم میں نڈھال تھی جیسے۔ ذرداری  نے مجھے ایک طرف کر کے کہا کہ وہ مر گیا ہے مگر اسکو مت بتانا۔ بے نظیر مجھ سے چمٹ گئی اور مجھے کہنے لگی مجھے بتاؤ کہ میرا بھائی زندہ ہے کہ مر چکا ہے؟

میں نے کہا میں نے تو غفار جتوئی کو فون کیا تھا اسنے تو مجھے یہ یہ بات کی تھی۔ اللہ کرے سب ٹھیک ہو دعا ہم بھی کریں گے آپ بھی کریں۔ بہرحال میں نے اسے ائیرپورٹ پر چھوڑ دیا۔  اور اتنی دیر میں ہمیں پتہ لگ گیا کہ وہ وفات پا گئے ہیں۔ ایک دن چھوڑ کر میں افسوس کے لئے گیا لاڑکانہ۔ مجھے گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ نے ریسیو کیا ائیرپورٹ پر۔ مجھے وہ کہنے لگے کہ جی آپ ہمارے ساتھ چلیں بے نظیر کے پاس۔ میں نے کہا کہ بھئی میں تو پہلے جاؤں گا بیگم ںصرت بھٹو کے پاس اور مرتضٰی بھٹو کی بیوہ کے پاس۔  مجھے انہوں نے کہا کہ نہیں آپ چلیں نو ڈیرو وہاں پہلے بیگم بھٹو نہیں آرہی تھیں مگر اب وہ بھی آرہی ہیں۔ میں نے کہا اچھا چلو۔

میں وہاں پہنچا تو بے نظیر بیٹھی تھیں، برامدہ سا تھا وہاں پر اور ساتھ کچھ سوگوار تھے۔ میری گھر والی بھی ساتھ تھی لیکن وہ پردہ کرتی تھی تو وہ علیحدہ گئی گھر کے اندر۔ اور بیگم بھٹو کمرے میں بیٹھی تھی اندر، انکے ساتھ شاید ایک اور خاتون تھیں۔ بے نظیر کے ساتھ میں نے افسوس کیا تو اسکے بعد اسنے کہا کہ آؤ اندر چلیں میری ماں کے پاس ۔اندر گئے تو بیگم بھٹو میرے ساتھ ایسے بغل گیر ہوئیں اور میرے ساتھ رو کر کہنے لگے میرے بیٹے کو انہوں نے مار دیا ہے میرے بیٹے کو انہوں نے مار دیا ہے۔ پھر مجھے پوچھتی ہیں کہ کس نے اسے مارا ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے کیا پتہ کس نے مارا ہے ؟

جو بات ہوئی تھی اس میں مجھے ایک شک تو آگیا۔ لیکن یہ ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ انسان ادھر اپنی رائے بھی نہیں دے سکتا۔ پھر میں نے کہا اپنے سٹاف کو کہ چلو غنویٰ بھٹو کے پاس المرتضیٰ میں، بھٹو صاحب کے گھر میں۔ سٹاف نے مجھے کہا کہ نہیں جی آپ ادھر نہیں جا سکتے۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ کیوں نہیں جا سکتا؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس لئے کہ وہ (غنویٰ بھٹو) ادھر نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ ابھی تو ادھر ہی تھیں اب کیوں نہیں ہیں؟ سٹاف نے کہا کہ جی آپ پھر کسی وقت جایئے گا ابھی نہیں۔ میں پھر ان کے پاس گھر انکے نہیں جا سکا اور اسلام آباد واپس آگیا۔

 

پہلے انہوں نے کہا کہ ٹائر شائر جلائے جا رہے ہیں میں نے کہا کہ  خیر ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے آپکو پتہ ہے کہ میں سیکیورٹی کی پرواہ نہیں کرتا تو پھر انہوں نے بعد میں کہا کہ وہ وہاں سے جا چکی ہیں۔ میں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ میں ہفتے بعد کراچی گیا اسے ملنے۔ بہر حال اسکے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے لگتا تھا کہ جیسے کوئی کوور اپ کیا جا رہا ہو۔ کیونکہ سارے اختیارات یا تو وزیر اعظم یا پھر وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس تھے۔ جو ادھر پولیس کے بندے لگے تھے وہ  انکی اپنی خاص چوائس کے بندے لگے تھے۔

ایک ایس ایچ او کو پولیس تحویل میں گولی مار دی گئی اور کہا گیا کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ ہھر ایک ٹیم منگوائی گئی

 

وہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے اطلاع ملی ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک ٹیم منگوائی جا رہی ہے۔ وہ جو ہم نے پتہ کرایا تو پتہ لگا کہ وہ تو بجائے سکاٹ لینڈ یارڈ کے کوئی پرائیویٹ ڈی ٹیکٹو  گورے تھےباہر کے۔ سکاٹ لیںڈ یارڈ کا تو ایک بہانہ تھا۔  

 

پھر انکوائری ہوئی ہے جج کے سامنے لیکن کوئی گواہی ایسی کوئی پیش نہیں کی گئی جج کے سامنے۔ اب اس میں عاشق جتوئی صاحب بھی فوت ہوئے اور یہ تو آپ کہہ رہے ہیں یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی معمولی قتل نہیں تھا۔ ایک وزیر اعظم کا بھائی تھا پارٹی کا سربراہ تھا یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ اس کا جو کوور اپ ہوا وہ یہ بتاتا ہے کہ  میرے خیال میں یہ اشارہ کرتا ہے یہاں کچھ  ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا۔ باقی اللہ جانتا ہے کہ اس میں کیا ہوا تھا یہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ جیسے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایسے ہے کہ جیسے یہ کیس رل گیا ہو۔ لیکن یہ ہے کہ وہ جو افسران تھے۔  وہ خاص  منظور نظر تھے اور انہیں انکی  پرانی پروموشنز مراعات تمام ملی تھیں۔  یہ بڑی عجیب سی کہانی تھی اور افسوسناک اور سندھ کے عوام خاص طور پر پیپلز پارٹی بھی جس کا بھٹو صاحب اور انکے خاندان کے ساتھ تعلق تھا وہ تشنہ ہیں کہ بھٹو صاحب کے صاحبزادے کے ساتھ کیا ہوا تھا کی نہیں؟