بجٹ میں حقیقی اصلاحات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے

بجٹ میں حقیقی اصلاحات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے
اپنے دوسرے بجٹ میں موجودہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر ان معاشی اصلاحات کو نظر انداز کر دیا جن کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ پالیسی سازوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہئیے کہ ملک کم ٹیکس وصول کرتے ہوئے بھی اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سود، سول، عدلیہ اور دفاعی افسران اور سیاسی شخصیات پر خرچ ہونے والی رقوم کی صورت میں اپنے غیر پیداواری اخراجات کو کنٹرول کر سکے اور اس کے پاس پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروں کو ادا کرنے کے لیے فنڈز ہوں تا کہ عوام کو احساس محرومی سے بچایا جا سکے۔

عوام کی اکثریت سوچتی ہے کہ وہ ان افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹیکس کیوں ادا کریں جو پہلے ہی سے دولت مند اور طاقت ور ہیں؟

سرکاری اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد کو ملنے والی پرکشش غیر مالی مراعات کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ ان کو مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق تنخواہ میں شامل کرنا چاہئیے۔ ان افسران کو دی گئی وسیع و عریض رہائش گاہوں کو نیلام کر دیا جائے جس سے اندورنی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی ممکن ہے۔

پبلک سیکٹر میں چلنے والے تمام کاروباری اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے یا پھر ملازمین کو ان میں ملکیت دے کر منافع بخش بنایا جائے تا کہ ریاست پر پڑنے والا بوجھ کم ہو سکے۔

بجٹ بناتے وقت محترم اسحاق ڈارنے بھی اپنے پیش رو کی طرح اس حقیقت کو نظر انداز کرنے میں عافیت گردانی کہ قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ اُس رقم کا زیاں ہے جو سود اور اعلیٰ طبقے، سرکاری اور غیر سرکاری افسران، عوامی نمائندوں اور دیگر اشرافیہ کو دی جانے والی سہولیات کے لیے صرف کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ پبلک سیکٹر میں چلنے والے کاروباری ادارے بھی سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ ٹیکس کا موجودہ نظام پہلے ہی بڑی حد تک بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کرتے ہوئے عوام کی گردن پر بھاری بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔

2023 کے مالیاتی بل میں عوام پر مزید سختی کا عندیہ دے دیا گیا۔ اگر اس بل کی منظوری دی جاتی ہے تو پیداواری شرح میں مزید کمی آئے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار نے ٹیکس کے نظام کو سادہ اور قابلِ فہم بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نا ہی اس کی پیچیدگی کے معاشی ترقی پر پڑنے والے منفی اثرات کا ادراک کیا۔ اب پیش کی جانے والی ٹیکس تجاویز بدعنوانی کے نئے راستے کھولتے ہوئے اس مافیا کو فائدہ پہنچائیں گی جو ایف بی آر کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان ٹیکسز کی وجہ سے پڑنے والے بوجھ کو کاروباری طبقہ بہت آسانی سے عام صارف پر منتقل کر دے گا۔ دکاندار کے لیے سیلز ٹیکس کی ادائیگی اور بجلی پر لگایا گیا مزید ٹیکس کاروبار کی لاگت کو بڑھا دے گا۔ عقل حیران ہے کہ ایف بی آر کے خودسر افسران زمینی حقائق سے بے خبر ہو کر کس قسم کے جابرانہ فیصلے اور من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ فیصلہ چھوٹی سطح پر ہونے والے تمام کاروبار کو بیک جنبشِ قلم ختم کر دینے کے مترادف ہے۔

اسحاق ڈار اس بات کی تفہیم میں ناکام ہو گئے کہ ودہولڈنگ ٹیکس، چاہے اس کا دارومدار انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 پر ہو یا سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 پر، محصولات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کر سکتا۔ اگر اس پر مزید زور دیا گیا ہے تو پھر یہ تجویز بھی سامنے آنی چاہئیے کہ ایف بی آر کو ختم کر دیا جائے کیونکہ اگر ودہولڈنگ ٹیکس ہی جمع کرنا ہے تو پھر 25 ہزار ملازمین کو پالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ غیر روایتی سیکٹر پر مزید ودہولڈنگ ٹیکس لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کی وجہ سے کاروبار کی لاگت اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کے باوجود لوگ ٹیکس فائل جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے۔ ٹیکس سال 2022 کے لئے صرف 3.6 ملین افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے حالانکہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد 7.6 ملین ہے اور اصل قابل ٹیکس افراد کی تعداد 20 ملین سے کم نہیں ہے۔ پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ موبائل فون صارفین کی صورت میں ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 110 ملین سے زیادہ ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے کروڑوں باشندے مختلف صورتوں میں ایڈوانس ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اُن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وہ ٹیکس افسران اور عملے سے سہمے رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریٹرن فائل کے حوالے سے آسان قوانین بنائے جائیں۔ تاہم اس ضمن میں پیچیدہ طریقِ کار ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو احساس کرنا ہو گا کہ وہ ٹیکس کا ایسا نظام وضع کرے جس سے عام آدمی پر بوجھ کم پڑے اور مراعات یافتہ طبقے کی جیب سے رقم نکلوائی جا سکے۔ ٹیکس کے نظام کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے اخراجات کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ اگر دولت مند افراد سے انکم ٹیکس وصول کر بھی لیا جائے لیکن حکومت کے اخراجات ایسے ہی رہے تو ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ دراصل ٹیکس پر جاری اس بحث کا مقصد غریب افراد کو دولت مندوں کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا نہیں بلکہ یہ حکومت اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے یاد دہانی ہے کہ عوام کو عدم تحفظ کا شکار ہونے سے بچائیں۔ جس قسم کے حالات کا پاکستان کو سامنا ہے، اس میں عام آدمی کو زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔

ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل پر یقین رکھنا چاہئیے۔ اگر حکومت عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے تو عوام کی ایک بڑی تعداد ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی آنے والی تعلیم یافتہ نسلیں موجودہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلی چاہیں گی۔ اس نظام میں انصاف کے اور دیانت کے تقاضے پورے کرنا حکومت کا فرض ہے۔ تاہم اسحاق ڈار نے ان معروضات کو نظر انداز کرتے ہوئے جابرانہ ٹیکس کے نظام کو جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ٹیکس مراعات پر ان کا IMF کے اعتراض کو رد کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔ حکومت کو احساس کرنا ہو گا کہ ملک کا غریب اور درمیانہ طبقہ انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہے اور اب تو نچلے طبقے والے سرکاری ملازمین بھی بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔