زیادہ تر پاکستانیوں کو 9 جون 2023 کو بجٹ کی تقریر سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس بجٹ میں غریب افراد کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔ درحقیقت دولت مند افراد کی حامی حکومت سے اس بات کی توقع تھی بھی نہیں کہ یہ غریبوں کو سکون کا سانس لینے دے گی۔ دراصل مایوسی کی وجہ دولت مند افراد پر ٹیکس عائد نہ کرنے کی روش ہے۔ دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسز کا تمام بوجھ آخرکار غریب افراد پر ہی پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت بیمار معیشت کی رگوں میں تازہ خون دوڑانے کا منصوبہ پیش کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
آزاد ماہرینِ معیشت اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے دوسرے بجٹ میں معاشی چیلنج سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام رہی۔ ایک سال کے بعد بھی معیشت سے متعلق عام مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیے۔ حکومت نا تو معیشت کی بہتری کے لیے درکار بنیادی اصلاحات لا پائی اور نا ہی توانائی کے بحران کے خاتمے کے کوئی آثار ہویدا ہوئے۔ اس لیے حالیہ بجٹ کو 76 واں سرکاری نااہل افسروں کا پیش کردہ ناکام بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ حسب معمول معیشت کی بحالی اور ترقی کے دعوے کیے گئے ہیں لیکن نتیجہ وہی؛ ڈھاک کے تین پات۔
مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت کے بجٹ ساز اسحاق ڈار اب موجودہ پی ڈی ایم الائنس کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اتنے ہی ناکام ثابت ہوئے جیسے کہ پہلے تھے۔ وہ نا ہی اصلاحات لانے کے قائل ہیں اور نا ہی کسی اختراع کے۔ وہ صرف اعداد و شمار کے کھلاڑی اور بعض لوگوں کے مطابق شعبدہ باز ہیں۔
موجودہ حالات میں کس طرح کا بجٹ پیش کیا جانا چاہیے تھا؟ یہ سوال نا تو عوامی سطح پر اور نا ہی حکمران الائنس کے اندر زیر بحث لایا گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ وہ مختلف امور کو کچھ افراد کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ ان میں سوچنے کا عمل ترویج پاتے ہوئے ایک پالیسی کی شکل اختیار کرے۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اس عمل کی گنجائش نہیں، اس لیے موجودہ بجٹ کو سابق روایت کے مطابق ہی بنایا گیا۔
اس اہم مسودے کو تیار کرتے ہوئے کسی نے بھی اس بات کا احساس نہیں کیا کہ اس نازک دور میں پاکستان کو باہمی اختلافات، انتشار، ہوشربا مہنگائی، افراتفری، سماجی کشمکش، لاقانونیت اور تنگ نظری سے بچنے کے لیے قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، دفاعی بجٹ، مہنگائی، غیر پیداواری اخراجات، کساد بازاری اور بد نظمی میں اضافہ ہماری بقا کے لیے سنگین چیلنجز بن چکے ہیں۔ تاہم پیش کیے گئے بجٹ میں ایسی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی جو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کی گئی ہو۔ اس کے بجائے بجٹ بنانے والوں کی توجہ اعداد و شمار اکٹھے کر کے عوام کو چکما دینے کی طرف زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بجٹ ٹیکس میں تقریباً 5 ہزار بلین روپے کا خسارہ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان میں ٹیکس کا پوٹینشل وفاقی سطح پر 16 ٹریلین روپوں سے کم نہیں۔ سادہ سے اعداد و شمار کے مطابق، فرض کریں 50 لاکھ افراد کی قابلِ ٹیکس آمدنی 15 لاکھ فی کس ہے تو ان سے حاصل کردہ ٹیکس 1750 بلین روپے ہو گا۔ اگر ہم انکم ٹیکس کا دائرہ موجودہ کاروباری اداروں سے بڑھا کر ایسے افراد اور اداروں کو بھی اس کے دائرے میں لا سکیں جن کی آمدنی 8 سے 10 لاکھ کے درمیان ہے تو ان سے 3500 بلین حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر سے 4000 بلین کا انکم ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں انکم ٹیکس کا ہدف صرف 3714 بلین روپے مقرر کیا گیا ہے۔
سیلز ٹیکس، وفاقی ایکسائز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز میں ہونے والی بہت زیادہ بدعنوانی کی وجہ سے مطلوبہ پوٹینشل کا صرف 50 فیصد ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسز کا پوٹینشل 7500 بلین روپے سے کم نہیں لیکن بجٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹیکس میں پائے جانے والے خلا کو کس طرح پورا کیا جائے گا۔ ایف بی آر میں بنیادی اصلاحات لاتے ہوئے اسے ٹیکس وصول کرنے والا ایک فعال ادارہ بنانے کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ایک ایسا ادارہ جسے پیشہ ور ماہرین چلاتے ہوں۔ آزاد اور خودمختار ٹیکس اپلیٹ سسٹم بھی متعارف نہیں کروایا گیا حالانکہ اس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کو درپیش شکایات کا ازالہ اور اس نظام پر ان کے اعتماد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وہ ٹیکس افسران کے ناروا رویے سے بھی بچ سکتے ہیں۔ لاکھوں افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لانے میں ناکام رہنے کے بعد ایف بی آر نے سابق ٹیکس دہندگان کو تنگ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ریٹرن فائل کرنے کے حق میں نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک مرتبہ وہ 'پھنس' گئے تو پھر ہمیشہ کے لیے ٹیکس افسران کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
اصل معاملہ انتہائی امیر افراد، جو قومی خزانے کے اربوں چھپائے بیٹھے ہیں، پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔ اگر حکومت ایسا نہی کر پاتی تو یہ سب کار لا حاصل ہے۔ فی الحال فنانس بل 2023 میں اس کی کوئی بازگشت سنائی نہیں دی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیکس قوانین میں اصلاح کرتے ہوئے ہر اس شخص کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے جس کی آمدنی 10 لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ فنانس منسٹری کی اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
گذشتہ کئی برسوں سے ایف بی آر 10 ٹریلین روپے بھی اکٹھے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے صوبوں کا مالیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی مالی ضروریات کے لیے وفاق کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان ایک طرح کی الجھن کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کو اشیا پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی حق دینے کے لیے تیار نہیں جبکہ وہ خود بھی مطلوبہ ٹیکس حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وفاق کی طرف سے صوبوں میں تقسیم کی جانے والی رقم اتنی کم ہے کہ اس سے غریب عوام کے لیے صحت اور تعلیم اور دیگر فلاحی منصوبے بنانا دشوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں غریبوں کی حالت ایک سی ہے۔
جس چیز نے بجٹ کو مایوس کن بنایا وہ دولت مند افراد سے براہ راست ٹیکس حاصل کرنے کے کسی پلان کی کمی ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر ٹیکس عائد کر کے غریب عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کی تکمیل کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
آئین کا آرٹیکل A 140 کہتا ہے؛
ہر صوبے کا فرض ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالی امور کی ذمہ داری مقامی حکومتوں کے نمائندوں تک منتقل کرے۔
وفاقی حکومت کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اگلے تین برس میں 12 ٹریلین کا ٹیکس بھی وصول نہیں کر پائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان قرضوں سے جان نہیں چھڑا پائے گا اور غریب عوام کی حالت مزید بگڑتی جائے گی۔ اگر ہم اس بحران سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مالیاتی امور پر نظرثانی کی جائے۔ جب تک صوبوں کے پاس اشیا پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، صوبائی خودمختاری بے معانی رہے گی۔ پاکستان کے موجوہ سیاسی سیٹ اپ میں اس کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ بجٹ 2023-24 محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ ملک اور غریب عوام کی مالی حالت پر اس کے کوئی مثبت اثرات نہیں مرتب ہوں گے۔
مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔