پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت یہ یقین رکھتی ہے کہ پاکستانی شہریوں کی بیرون ملک 11 ارب ڈالرز کی خطیر رقم موجود ہے جس میں سے نصف بھی کبھی ظاہر نہیں کی گئی۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک اکائونٹس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 52 ہزار پانچ سو سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لئے عمران خان کو یہ چار اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ لیکن شاید وہ ایسا نہ کریں
وزیر مملکت کا کہنا تھا، تمام آف شور اکائونٹس پاکستان میں رہائش پذیر شہریوں کے ہیں جن میں موجود نصف سے زائد رقم ظاہر نہیں کی گئی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کا کاروبار قانونی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا یا ان کا کہیں بھی اندراج نہیں۔
انہوں نے کہا، یہ اکائونٹس ملک میں ہونے والی ٹیکس چوری کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں، اگر ہم یہ رقم ملک واپس لے آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں کسی سے قرض مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
واضح رہے کہ ان آف شور اکائونٹس کی نگرانی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کر رہا ہے۔
حماد اظہر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حکومت نادرا، ایف آئی اے، سٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایف بی آر کی مدد سے پاکستان کے ممکنہ ٹیکس دہندگان کا پروفائل تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہے اور اس پر جاری کام اپریل کے آخر تک ختم ہو جائے گا۔
یہ بھی بڑھیں: حکومت قرضوں سے نہیں چلتی، اور نہ ہی بہتان تراشی معیشت سدھار سکتی ہے
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے چیئرمین جہانزیب خان نے کہا تھا، اداروں نے ان آف شور اکائونٹس سے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے اور نہ ہی پاناما لیکس کے بعد ٹیکس کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا تھا، آف شور اکائونٹس سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنا پر ٹیکس کے اہداف مقرر کرنا ممکن نہیں کیوں کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اکائونٹ ہولڈرز نے یہ رقم قانونی طریقے سے منتقل کی ہو یا ان کے پاس ایسا کرنے کا جواز موجود ہو۔
یاد رہے کہ صرف چار سو کے لگ بھگ اکائونٹس میں 10 لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ رقم ہونے کا امکان موجود ہے، اور ایف بی آر نے صرف ایک شخص سے 12 لاکھ ڈالر ٹیکس وصول کیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے برسوں قبل یہ دعوی کیا تھا کہ سوئس اکائونٹس میں پاکستانی شہریوں کی دو ارب ڈالر کی رقم موجود ہے تاہم وہ کبھی اپنے دعوے کی تصدیق نہیں کر پائے تھے۔ اب یہ سوئس اکائونٹ کس کے ہیں، اس بارے میں اسحٰق ڈار ہی بتا سکتے ہیں؟ یا موجودہ حکومت اس حوالے سے کوئی اقدام کر سکتی ہے جس نے یہ رقم وطن واپس لانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے ایک ریکوری یونٹ بھی قائم کر چکے ہیں۔