ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
غالب نے یہ شعر کس زمانے اور کس موقع پر کہا ہوگا؟ اللہ ہی جانتا ہے لیکن اس وقت یہ جماعت اسلامی پر اس لئے فٹ بیٹھتا ہے کہ اس کے سابق صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد نے ایک بار پھر استعفٰی دے دیا ہے جس کے بعد سے جماعت کے کارکن ہی نہیں سیاست کے دیگر طالب علم بھی شعر کے دوسرے مصرعے کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
آخر ہوا کیا ہے؟ اور ہونے کیا جا رہا ہے، کون مشتاق ہے اور کون بیزار، اس طرح کئی دوسرے سوالات کا تجزیہ آسان کام نہیں ہے لیکن پھر بھی کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔ اسے جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے سابق صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان کا جذباتی پن کہیے یا مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق کے ساتھ ”ورکنگ ریلیشن شپ“ کا نتیجہ کہ وہ اس قدر دلبرداشتہ یا بیزار ہوئے کہ صوبائی امارت سے دوسری مرتبہ استعفیٰ دیا اور اس بار منظور بھی کر لیا گیا۔
سینیٹ میں دبنگ تقاریر کے بعد کیا وہ واقعی جماعت اسلامی کے منظور پشتین بننے جا رہے ہیں؟ اور ان کی نظریں جماعت کی مرکزی امارت پر ہے یا مستقبل میں وہ کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ جماعت اسلامی جیسی منظم اور ڈسپلن کی پابند جماعت بھی گروہ بندی کا شکار ہو گئی ہے اور بڑے رہنمائوں کے درمیان بھی سیاست کا کھیل جاری ہے۔ کسی زمانے میں اس جماعت کی روایت یہ تھی کے ایک عام رکن کا پارٹی سے اخراج یا چھوڑ جانا اہم مانا جاتا تھا لیکن اب یہ معمول بن گیا ہے جو بہرحال جماعت اسلامی کیلئے اچھی خبر نہیں ہے۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گذشتہ چند سال سے انتخابی سیاست میں جماعت اسلامی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے اور پارٹی کافی حد غیر مستحکم ہو چکی ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں جماعت نے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں جیتی تھیں جبکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی پارٹی کو پورے صوبے بالخصوص اپنے مضبوط گڑھ مالاکنڈ ڈویژن میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 129 تحصیل ناظمین کی سیٹوں پر صرف چھ سیٹوں میں پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری مرکزی اور صوبائی امیر پر ہی ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ دونوں کو اپنی لڑائی سے فرصت نہیں تھی اور پارٹی کو اس حال پر پہنچا دیا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ جماعت اسلامی کے مستقبل کے مرکزی امیر کے مضبوط امیدوار مشتاق احمد خان اتنے دلبرداشتہ یا بیزار ہوئے کہ صوبائی امارت سے استعفیٰ دے دیا؟
ایسا لگتا ہے کہ سراج الحق کی شخصیت میں بھی سختی ہے اور درگزر کا پہلو ان کی شخصیت سے رخصت ہو چکا ہے۔ بہرحال اس مبینہ لڑائی سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشتاق احمد خان کا پارٹی کے اندر کوئی گروپ نہیں تاہم ان کا بیوروکریٹک سٹائل پارٹی میں خاصا مشہور ہے۔ اس کے برعکس سراج الحق کا خیبر پختونخوا کی تنظیم میں ایک مضبوط گروپ ہے اور گاہے بگاہے سراج الحق اپنے گروپ کے لوگوں کو اہم عہدوں سے نواز کر اس امر کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں، کیا مشتاق احمد خان کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ یہ تو ہم نہیں بتا سکتے لیکن بقول مشتاق احمد خان کے گذشتہ استصواب سے پہلے بھی انہوں نے مرکزی تنظیم اور مرکزی امیر سے درخواست کی تھی کہ ان کا نام صوبائی امارت کیلئے تجویز نہ کیا جائے لیکن ان کی درخواست کو نہیں مانا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے استعفے کی بڑی وجہ سینیٹ کی مصروفیات ہیں۔ اس ذمہ داری پر وہ مستقبل میں مزید یکسوئی کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ پارٹی کی اکثریت اس بات کی حامی ہے کہ دونوں رہنمائوں کی کیمسٹری نہیں لگتی تھی اور دونوں کے مابین لمبے عرصے سے اختلافات چل رہے ہیں۔
مشتاق احمد خان 2015ء میں پہلی مرتبہ، 2018ء میں دوسری اور 2021ء میں تیسری مرتبہ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلیٰ بھی رہے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں شکست کے بعد ان کے مرکزی امیر کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے جب پارٹی کی شوریٰ نے انہیں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا تاہم اس ناراضی میں شدت اس وقت آئی جب سراج الحق نے ان کے مشورے کے بغیر صوبائی اور ضلع سطح پر تقرریاں کیں۔
پارٹی ذرائع کہتے ہیں کہ مشتاق احمد خان پشاور کے ضلعی امیر کے انتخاب، جے آئی کے صوبائی صدر کی تقرری سمیت کئی دیگر امور پر مرکزی امیر کے فیصلوں سے نالاں تھے اور اسے اپنے کام میں مداخلت قرار دیتے تھے۔ وہ پشاور اور مالاکنڈ ایجنسی کے بعض سینئر رہنمائوں کے خلاف ڈسپلنری ایکشن کے خواہاں تھے جس میں وہ جزوی طور پر کامیاب بھی ہوئے لیکن ان کی ہر بات نہیں مانی گئی۔
پارٹی کی کئی اہم تقریبات میں بھی ان کو نہیں بلایا جاتا تھا جس کا مشتاق احمد خان نے اظہار بھی کیا تھا۔ پارٹی کے بعض اہم افراد سینیٹ میں مشاق احمد خان کی تقاریر کو بھی ان اختلافات کی وجہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ ملکی میڈیا کا ایک بڑا حصہ انہیں خاصی کوریج دے رہا تھا جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن بعض ذمہ دار افراد کے مطابق استعفے کے فیصلے نے مرکزی امارات کیلئے مشتاق احمد خان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔
مرکزی امارت کا فیصلہ دسمبر 2024ء میں متوقع ہے۔ انہیں پارٹی میں ایک بیوروکریٹ امیر کی طرز پر دیکھا گیا ہے جس سے ان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے اور بعض رہنما تو اس کا برملا اظہار بھی کرتے آئے ہیں۔
پارٹی کے کئی سینئر رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ پارٹی کے ایک بڑے لیڈر کا استعفیٰ پارٹی کیلئے نقصان دہ ہے۔ چاہے قصور جس کسی کا بھی ہو، وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ کیوں تیسری مرتبہ ان کا نام شامل کیا گیا کیونکہ ایسا بہت مشکل ہوگا، اراکین کیلئے ان کا نام موجود ہو اور کوئی دوسرا انتخابات جیتے۔
ایک تاثر پارٹی کے اندر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مشتاق احمد خان کو سینیٹ کی سیٹ صوبائی امارت کی وجہ سے ہی ملی تھی، اس لئے انہیں اہم عہدے کی خاطر اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کرنا چاہیے تھا۔
ان سطور سے آپ نتیجہ خود نکال لیجئے تاہم ایک بات عیاں ہے کہ انتخابات زیادہ دور نہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے فیصلہ بھی سنا دیا ہے جس کے بعد پنجاب ہی نہیں مرکزی حکومت بھی ڈانواں ڈول ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات وقت سے پہلے ہوں گے۔ ایسے میں یہ حالات جماعت اسلامی جس کی حالت پہلے ہی کافی پتلی ہے، کے لئے زیادہ سازگار نہیں ہیں۔ سراج الحق نے صورت حال کی نزاکت کا ادراک نہ کیا تو شاید الیکشن کے بعد متذکرہ شعر کا دوسرا مصرعہ بڑبڑاتے نظر آئیں، صرف ’ہے‘ کے بجائے ’تھا‘ کی تبدیلی کے ساتھ۔
عمیر محمد زئی گذشتہ 18 سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکسپریس، ایکسپریس ٹریبیون اور فرنٹیر پوسٹ میں کام کرچکے ہیں۔