’موت کے بدلے موت، بلاتکار کے بدلے بلاتکار‘

’موت کے بدلے موت، بلاتکار کے بدلے بلاتکار‘
یہ کہنا تھا ایک سابق بھارتی میجر جنرل ایس پی سنہا کا۔ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران سنہا نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ موت کا بدلہ موت ہے۔ اور یہ جملہ کئی بار دہرانے کے بعد انہوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ بلاتکار، یعنی rape، کے بدلے بلاتکار بھی ہوگا۔

ایس پی سنہا صاحب کو گاندھی جی کا یہ قول یاد دلانا کہ ’آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون پوری دنیا کو اندھا کر دے گا‘ بالکل فضول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی جس کے اب وہ رکن ہیں، پیدا ہی آر ایس ایس اور آریہ سماج پارٹی جیسی تنظیموں کے بطن سے ہوئی ہے۔ اور نتھو رام گاڈسے بھی ایک انتہا پسند ہندو تھا جس نے گاندھی جی کا قتل کیا، انہی تنظیموں کی سوچ سے متاثر تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا بھارت گاندھی جی کا بھارت نہیں۔ یہ نتھو رام گاڈسے کا ہندوستان ہے۔ ایسی صورت میں جب ہمارے وزیرِ خارجہ دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ نہرو اور گاندھی کا سیکولر بھارت نہیں تو گو وہ سچ کہہ رہے ہوتے ہیں، اس کا اثر بھارتی حکومت کی سوچ اور حکمتِ عملی پر اس لئے نہیں پڑتا کہ وہ یہ دعویٰ ہی نہیں کرتے کہ وہ نہرو یا گاندھی کا بھارت ہیں۔ وہ اسی نعرے کے ساتھ حکومت میں آئے ہیں کہ یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں ہندو ہی رہیں گے۔



پاکستان کا اپنا ٹریک ریکارڈ اقلیتوں کے حوالے سے کوئی شاندار نہیں۔ مگر اس پر پھر کبھی بات کی جا سکتی ہے۔

یہاں اصل مدعا مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا نہیں بلکہ خواتین کے حقوق کا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی آسانی سے کوئی بھی مرد اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ ’بلاتکار کا بدلہ بلاتکار‘ ہے؟ کیسے کسی انسان کی ہمت ہو جاتی ہے یہ کہنے کی کہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے مردوں کے جرائم کا بدلہ اس مذہب کی ماننے والی عورتوں سے لیا جائے؟ یہ حیوانیت عورتوں پر ہی کیوں ٹوٹنے کو بےقرار رہتی ہے؟

یہ پدرشاہی معاشرے کی تعفن زدہ سوچ کہ عورتیں مردوں کی ملکیت ہیں، کب تک مذہب، سیاست اور ریاست کے نام پر عورتوں کا استحصال کرتی رہے گی؟ اگر ہندو عورتوں کا بلاتکار ہوا ہے تو کیا وہ مسلمان عورتوں نے کیا ہے؟ اس کی سزا ان عورتوں کو کیوں دی جائے گی؟ ان مردوں کو کیوں نہیں جنہوں نے وہ جرائم کیے؟

اور کسی بھی جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ نجانے کیوں BJP کے انتہا پسند ہندو ہوں یا ہمارے یہاں کی دائیں بازو کی جماعتیں، اس قبائلی سوچ سے پیچھا چھڑا ہی نہیں پائیں آج تک۔ جرمن فلسفی Hannah Arendt نے یہی کہا تھا کہ ’ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں‘ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ کوئی جرم میں شریک ہی نہیں۔ جس کا جرم ہے، اس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا لازمی ہے اور بدلہ بھی اسی سے لیا جائے جس نے جرم کیا ہے۔ فرح نقوی کے الفاظ میں ’کشمیر کی کلی‘ کا تصوّر انتہا پسند ہندوؤں کے لئے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔



اس سوچ کو اب ختم ہونا ہوگا۔ عورتیں ہم مردوں کی ملکیت نہیں۔ ہر فرد کی اپنی ایک شناخت ہے، ہر فرد اپنے عمل کے لئے ذمہ دار ہے، اور ہر فرد کو اس کے جرائم کی سزا خود ہی بھگتنا ہوگی۔ عورتوں کو جاگیر کی طرح treat کرنا حیوانیت ہے۔ اگر خدا یا بھگوان نے آپ کو انسان بنایا ہے تو اس پر اس کا شکر ادا کریں، اور انسانوں والے رویے اپنائیں، جانوروں والے نہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.