جالبؔ ہمیشہ امر رہے گا

جالبؔ ہمیشہ امر رہے گا
دور ِ جدید میں تخیلات کا اظہار تکنیکی اعتبار سے بہت سہل ہو چکا ہے۔ ابلاغ اتنی جدت حاصل کر چکا ہے کہ آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں، جیسے چاہیں، خیالات بیان کر سکتے ہیں۔وہ بھی کیادور تھا جب فن ِ مقرری پر گرفت رکھتے ہوئے اُردو ادب کی اصناف کا سہارا لے کر ببانگ ِ دہل خیالات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ حالاں کہ ذرائع ابلاغ اتنے موثر طریقے سے کارآمد نہیں تھے، ریڈیو سرکاری قوانین کے سانچے میں قوت ِ گویائی کا استعمال کرتا تھا، اخبارات زیادہ تر اپنی بساط کے مطابق قلمی حرکت کیا کرتے تھے۔ لیکن ادبا اور شعراکی آواز کم وسائل میں بھی جنوبی ایشیاء کا طواف کیا کرتی تھی۔جمہوریت کی ترویج، عوامی فلاح کا خواب اُن مفکرین نے دیکھا اور نتائج میں متعدد بار پابند ِ سلاسل ہوئے۔ اُن اشخاص کی سطور میں اوّلین نام، عوام کے حبیب، حبیب جالبؔ کا ہے۔

 جالبؔ مرحوم کا نام سنتے ہی دل و دماغ میں ان کی کہی گئی نظمیں ان کے منفرد انداز میں گونجتی ہیں۔قدرت نے ان کے مقدر میں عوام کے لئے جدوجہد لکھی تھی، سو انھوں نے دل جمعی سے کی۔ اپنی حیاتی میں زیادہ وقت مقید ہو کر گزرا۔ معاشرے کی فلا ح، جمہوریت کے فروغ میں قلم کی سیاہی صَرف کی۔ان کی زندگی کے کٹھن نشیب و فراز پر بہت مواد لکھا جا چکا ہے۔ جالب ؔکاخاندان اور خصوصاََ ان کے قارئین ان کی عملی جد و جہد کے شاہد ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنا نام اور پہچان سب سے پہلے اپنے بڑے پوتے ’امر‘ کو دی۔اور فرمایا کہ”اس کا نام’ امر جالب‘ رکھو ں گا،جالب ہمیشہ امر رہے گا “۔ 

ادنیٰ سا قاری ہونے کے ناطے جالبؔ مرحوم کی زندگی اور خاندان کا نظریہ جاننے کی خواہش کے پیش ِ نظر ان کے پوتے امر جالب کے ساتھ ایک نشست منعقد کی۔ امر پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں لیکن آپ کا انداز ِ بیان،نظریہ ہو بہواپنے دادا سے مشابہت رکھتا ہے۔ ایک لمحے کو تو جالب ؔ مرحوم  ہی کی جھلک محسوس ہوئی۔ ابتدا میں پوچھا کہ جالبؔ مرحوم کا آرکائیوآپ کے خاندان میں کون سنبھالتا ہے؟ امر کا جواب نہایت سادہ مگر پُر اثر تھا، ان کا کہنا تھا کہ جالبؔ کا کلام، قارئین کے اذہان و قلوب میں ازبر ہے۔لیکن چوں کہ ہمارا گھر اُن کی شاعری پر تحقیق کرتا ہے تووہ ہمارے پاس موجود ہے۔بطور قاری سوال پیدا ہوا کہ آج اگر حق کا پرچار کیا جائے، تو بغاوت کے زمرے میں لایا جاتا ہے، کیا جالب ؔ مرحوم کے نظریا ت سماجی بغاوت کی جانب مائل کرتے تھے؟امر کا کہنا تھا کہ حق کے لئے لڑنا بغاوت نہیں ہوتی، جو شخص یا ادارہ یہ سوچتا ہے اُس کی کم عقلی ہے۔ جالبؔ مرحوم نے ہمیشہ نظریے سے بھٹکے ہوؤں کی راہنمائی کی۔جو نظریہ قیام ِ پاکستان کے وقت قائد اعظم نے دیا، جالب ؔنے اسے آگے پھیلایا۔ ایک خاص بات حبیب جالبؔ کے بارے میں معلوم ہوئی، کہ آپ کبھی اقتدار سے باہر حکمران پر کلام نہیں سناتے تھے۔ اگر فرمائش ہوتی تو برملا کہہ دیتے کہ اب وہ شخص اقتدار میں نہیں ہے، میں اس کے خلاف نظم پڑھنا بے غیرتی اور بزدلی سمجھتا ہوں۔ ہاں! اگر صاحب ِ اقتدار کے خلاف نظم کی خواہش ہے تو وہ سنا دیتا ہوں۔

جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سابق فوجی آمرایوب خان کے خلاف عَلم ِبغاوت بلند کیا تو جالب ؔ مرحوم نے ان کے نظریات کی پذیرائی کی اوردوستی کا ہاتھ بڑھایا۔لیکن جب جالبؔ نے دیکھا کہ بھٹو مرحوم ان نظریات پر منتقل ہو گئے جن کے خلاف آپ متفق تھے تو انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔جالب ؔ نے بھٹومرحوم کے خلاف اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی نظمیں کہیں، اور جیل کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔امر نے بھٹودور کا واقعہ سنایا کہ میرے چچا طاہر عباس کا انتقال نو عمری میں ہوا۔اس موقع پر حیدر آباد سازش کیس کے حوالے سے اہلکار سول کپڑوں میں جالب ؔمرحوم کو گرفتار کرنے آ گئے۔انھوں نے التجا کی کہ مجھے باتھ روم جانے دیا جائے۔ اہلکاروں نے کہا ہمیں فوری گرفتاری کا حکم ہے۔ آپ کو راستے میں کسی مقام پر سہولت مہیا کر دیں گے۔ جالب ؔمرحوم نے کہا بھئی میں بھاگنے والا تو نہیں ہوں، نہ ہی کبھی بھاگا ہوں۔ ابھی تو میرے بچے کا جنازہ بھی پڑا ہوا ہے، اس کی تدفین کر لوں پھر جہاں کہو گے آ جاؤں گا، لیکن چند لمحوں بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

آج سماج میں آمرانہ گھٹن کے باعث آزادیِ اظہار نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ امر جالب نے ان حالات میں بھی اُمید کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی۔ کہا کہ اگر سب مل کر تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالیں،یہ معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔ہمارا پلیٹ فارم” حبیب جالبؔ میموریل فاؤنڈیشن“ اُن کے نظریات کی ترویج سے معاشرے کی بہتری کے لئے سرگرداں ہے۔آزادی ِ اظہار میں آسانی کی بات کریں تو دورِ جدید میں یہ عمل نہایت آسان ہے، اتنی آسانی جالبؔ صاحب کے دور میں بھی نہ تھی۔ جالبؔ مرحوم نے اُس دور میں آزادی سے خیالات کا اظہار کیا، جب تمام ذرائع ابلاغ کی طرف سے ان پر پابندی تھی۔چوں کہ آپ کو جیل میں قلم اور صفحہ استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی، آپ کوئلے سے لکھا کرتے تھے۔ مجموعی طور پر سات مرتبہ پابند ِسلاسل ہوئے اور اپنی سات کتب جیل ہی میں تحریر کیں۔جیل سے باہر بہت کم شاعری کی۔آخری بار جب حکومت نے اُن کے پختہ عزم کے سامنے ہار مان لی، تب آپ نے اپنی ڈائری میں کچھ نظمیں تحریر کیں، جن کے حوالے سے آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے ناصر جالب کو وصیت کی کہ ہو سکے تو ان کو کتاب کی صورت میں شائع کرنا۔ آپ کی وفات کے بعد سن 1996ء میں غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل آپ کی آٹھویں کتاب ”میں ہوں شاعرِ زمانہ“کی رونمائی وزارت ِ عظمی پر براجمان محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی۔معاشی مشکلات کے باعث اس کتاب کا صرف ایک ہی ایڈیشن شائع ہو سکا۔

امر جالب نے خاندان کے دیگر ادبی اشخاص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میری دادی ممتاز بیگم پنجابی شاعرہ تھیں۔جیسا کہ کہاوت ہے، ہر کامیاب مردکے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جالب ؔمرحوم کی قلمی جد و جہد میں میری دادی کا کردار ہے۔جب بچوں پر بھوک آتی ہے، تو والدین کو بچوں کی بھوک مٹانے سے زیادہ کوئی عمل عزیز تر نہیں ہوتا۔اگر میری دادی اُن ایام میں حوصلہ افزائی نہ کرتیں،تو شاید وہ کہیں ڈگمگا جاتے۔

میرے والد ناصر جالب مرحوم نے بھی شاعری کی۔اپنے والد کی جد وجہد کا آنکھوں دیکھا حال’روداد ِ وفا‘اوردوسری کتاب ’ حبیب جالب شاعری، منظر  پسِ منظر‘ کے عنوان سے تحریر کی۔

میرے نانا اور دادا بھائی تھے۔ نانا مشتاق حسین مبارک اصل میں شاعر تھے۔ جالب ؔ خداداد صلاحیت کے تحت شاعر بنے۔ اپنے بھائی کے ساتھ بڑے مشاعروں میں شرکت کی۔پاک و ہند کے بڑے شعرا کرام کو سنا اور ان کے ہمراہ مشاعرے بھی پڑھے۔

امر نے جالبؔ مرحوم کی معاشی جد و جہد بارے بتایا کہ جالبؔ نے بندر گاہ پر بھی مزدوری کی، سنیما ہال میں مونگ پھلی بھی فروخت کی۔بطور پرو ف ریڈر بھی فرائض ادا کیے۔ جب کراچی سے لاہور سکونت اختیار کی تو یہاں آ پ کا ذریعہ معاش رومانوی طرز کے فلمی گیت بھی رہے۔ ایک وقت آیا کہ آپ نے فلمی گیت لکھنا چھوڑ دیے۔آپ نے زیادہ تر فلمی گیتوں کی شاعری بھی جمہوریت کی ترجمانی اور حقوق کے حصول پر کی۔

جالبؔ کے نظریات میں مارکسزم اور کمیونزم کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ امر جالب نے کچھ حد تک تردید کی کہا کہ آپ مکمل مارکسسٹ یا کمیونسٹ نہیں تھے، صرف اُن معاملات پراِن نظریات کا پرچار کرتے جہاں اپنے نظریات سے مماثلت نظر آتی ہو۔

ایسے بے باک مقررین و شعراء سیاسی آنکھوں میں ضرور عکس بند ہوتے ہیں۔ جالبؔ کا نظریہ اُن کے خاندان کے انگ انگ سے نظر آتا ہے۔ امر جالب نے اس حوالے سے کہا کہ جالبؔ کے انتقال پر اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ناصر جالب مرحوم کو پارٹی سے وابستگی کی دعوت دی۔لیکن یہ پیشکش انھوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ جب تک معاشرے کے ہر شخص کو تمام بنیادی سہولیات میسر نہیں آ جاتیں،تب تک ہم کسی قسم کی امداد نہیں لیں گے۔

خاندانی وابستگی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے ساتھ خاندانی مراسم ہیں۔جالبؔ صاحب نے بی بی شہید کے حوصلے سے متاثر ہو کران کو اپنی زندگی میں بیٹی بنایا۔امرنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ آنے والے وقت میں ارادہ ہے کہ غیر سیاسی طریقے سے جمہوریت کی آبیاری کے لئے مرکزی صفوں میں آؤں گا۔

  امر جالب سے ملاقات میں ایک انداز دل کو بہت بھایا، جب جالبؔ مرحوم کے نظریات اور تحاریر کا تذکرہ ہوتا، امر مفخرانہ کیفیت سے سرشارہوتے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے جلائے ہوئے انقلابی چراغ کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑے گی۔ ادوار کے ہر موڑ پرجالبؔ کے کہے اشعار یاد آئیں گے۔اپنے شعر سے’جالب ؔہمیشہ امر رہے گا‘۔

اُسامہ غیور اخترایک صحافی ہیں، نجی چینل میں نیوز اینکر اور نجی اخبار میں کالم نگار ہیں۔فنون ِلطیفہ سے شغف رکھتے ہیں اور ریڈیو پاکستان لاہور مرکز میں بطور صداکار فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔